غزل
تیر کہتا ہے نہیں اج میں چلنے والا
میں بھی امکان سے اگے کو ہوں بڑھنے والا
اتنے گہرے ترے پیکر نے کئے ثبت نقوش
تیرا احساس نہیں دل سے نکلنے والا
کس نے اب شوقِ مسیحائی کی چادر اوڑھی
کون احساس کی سولی پہ ہے چڑھنے والا
کوئ تو شخص قبیلے سے بغاوت کرتا
کوئ ہوتا مرے حالات بدلنے والا
میں نے ادراک کے موتی بھی سمیٹے ہیں یہاں
تیری محفل سے نہیں اب میں نکلنے والا
میرے مولا تو مرے درد کا درماں دے دے
تیرا عمران نہیں اج تو ٹلنے والا
احمد عمران اویسی