غزل
جادۂ الفت کا یہ صبر آزما عالم نہ پوچھ
ہر قدم پر غم کی منزل کے سوا کچھ بھی نہیں
یوں تصور نے بڑھائے حوصلے طوفان میں
جیسے ہر اک موج ساحل کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کی خلوت گاہ بھی ہے ان کی جلوت گاہ بھی
وسعت کونین میں دل کے سوا کچھ بھی نہیں
ذرے ذرے میں ہیں رنگا رنگ بزم آرائیاں
دونوں عالم تیری محفل کے سوا کچھ بھی نہیں
بس اجل کے بعد ملتی ہے حیات جاوداں
زندگی اک نقش باطل کے سوا کچھ بھی نہیں
شکوۂ بے چارگی میکشؔ کسی سے کیوں کریں
عشق تو محرومیٔ دل کے سوا کچھ بھی نہیں
استاد عظمت حسین خاں