جادۂ درد کے حالات مرے اپنے ہیں
راہ کے سارے طلسمات مرے اپنے ہیں
قفل گو ڈال گیا دست تشدد لب پر
ہم نوا میرے خیالات مرے اپنے ہیں
کیسے ہو رد بلا کیا ہو تباہی سے گریز
وہ جو ہیں باعث آفات مرے اپنے ہیں
دیر سے مجھ پہ جو ہیں سنگ زنی میں مصروف
دیکھتی ہوں تو سبھی ہات مرے اپنے ہیں
نہ ہوا مجھ کو میسر کبھی اپنا ہونا
کیجئے کیا کہ یہ حالات مرے اپنے ہیں
جب کبھی تیرے تعلق کا تحفظ پایا
زندگی کے وہی لمحات مرے اپنے ہیں
جن کی بنیاد ہوئی میرے لہو سے تعمیر
یہ گھروندے وہ محلات مرے اپنے ہیں
سبب گمرہی ثابت ہوا ضعف ادراک
وہ جو حائل ہیں حجابات مرے اپنے ہیں
میں عیاںؔ درد کے رشتے سے رہی عالمگیر
فکر کے سارے مقامات مرے اپنے ہیں
رشیدہ عیاں