loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 03:03

جادۂ زیست پہ برپا ہے تماشا کیسا

جادۂ زیست پہ برپا ہے تماشا کیسا
دوست بچھڑا ہے ہر اک گام پہ کیسا کیسا

دل کا آتش کدہ ویران پڑا تھا کب سے
آنکھ سے بہنے لگا آگ کا دریا کیسا

اس پہ تو فصل خزاں مار چکی ہے شب خوں
موسم گل کے گزر جانے کا کھٹکا کیسا

چاند سے چہرے نظر آنے لگے ہیں کتنے
کھل گیا میری نگاہوں پہ دریچہ کیسا

جس میں اک اشک نہ ہو آنکھ کہاں ہے وہ آنکھ
بوند پانی کی نہ ہو جس میں وہ دریا کیسا

بے تحاشا جو بڑھی جاتی ہے سوئے گرداب
ناؤ نے دیکھ لیا اس میں کنارا کیسا

دیکھ محفل میں ہر اک آنکھ ہے نم یزدانیؔ
تو نے یہ چھیڑ دیا آج فسانہ کیسا

یزدانی جالندھری

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم