جانتا ہوں میں سب مگر پھر بھی
ہے گلہ بے سبب مگر پھر بھی
ایک اقرار کی تمنا میں
میں ہوا جاں بلب مگر پھر بھی
اپنی قیمت کا بھی ہے اندازہ
ہے فزوں تر طلب مگر پھر بھی
کون کافر کبھی ہوا منکر
وہ ہے لا ریب رب مگر پھر بھی
حسن اور آئینے سے کترائے
ماجرا ہے عجب مگر پھر بھی
ہائے وہ اک ادائے شکوہ گری
گرچہ ہو زیر لب مگر پھر بھی
سارے عاشق بخوبی جانتے ہیں
ڈوبتا ہے نسب مگر پھر بھی
دھونڈتے پھرتے ہو کسے انصر
پاس ہو اپنے اب مگر پھر بھی
انصر رشید عنصر