جانشینِ داغ دہلوی نوح ناروی

داغ دہلوی کی وفات کے بعد ان کی جاں نشینی نوح ناروی کو کس نے عطا کی

جناب حضرت نوحؔ ناروی کو فصیح الملک داغؔ دہلوی مرحوم سے تلمذ حاصل تھا۔آپ حضرت داغ کے مشہور و معروف شاگرد تھے۔
آپ یکم شوال بروز عید 1296ھ مطابق 18 ستمبر 1879ء یوم جمعہ کو صبح صادق کے وقت اپنے ننہال نہوانی پور تحصیل سلون ضلع راۓ بریلی میں پیداہوۓ۔آپ کے والد محترم کا نام مولوی عبدالمجید تھا۔جب آپ کی عمر چار سال کی تھی تو 26 جون 1883ء کو آپ کے والد محترم کا انتقال ہو گیا۔نوحؔ صاحب نے حافظ قدرت علی صاحب مرحوم سے کلام اللہ پڑھنا شروع کیا تھا حافظ صاحب موصوف نارے کے ایک مشہور حافظ تھے۔ڈیڑھ سال میں انہوں نے قرآن مجید ختم کیا اور پھر فارسی کی تعلیم شروع کی چند دنوں تک مولوی محمد یوسف صاحب ساکن نارہ سے پڑھتے رہے جب کچھ مناسبت پیدا ہو گئی تو قصبہ مچھلی شہر ضلع جون پور کے بزرگ مولوی عدبالفتاح صاحب فارسی اور ایک پرائیویٹ استاد محمد علی صاحب ساکن الہٰ آباد انگریزی پڑھانے کے واسطے مققر ہوۓ۔فارسی کی تعلیم نوحؔ صاحب نے دو تین سال میں ختم کر لی۔اس کے بعد نوحؔ صاحب میر نجف علی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوۓ۔وہاں سے انہوں نے بہت جلد فارسی ادب اور فلسفہء اخلاق کی مروجہ کتابیں پڑھیں اور عربی صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی۔
میر نجف علی صاحب نجفؔ جن سے آخری کتابیں پڑھنے جاتے تھے ان کے ہاں بیش تر شعر و شاعری کا چرچہ رہتا تھا کبھی کبھی لوگ کلام سننے کے لۓ اور اصلاح لینے کو آ جاتے تھے ایک روز رات کو انہوں نے نئی زمین مین غزل کہی اور صبح کو جب نوحؔ صاحب سبق پڑھنے کو گۓ تو نہیں معلوم کیا سمجھ کر انھوں نے ان کو وہ غزل سنائی چونکہ غزل لاجواب تھی اس کے سننے سے ان کے دل پر خاص اثر ہوا اور مکان پر آ کر یہ سوچنے لگے کہ اگر میں یہ شعر کہنا چاہوں تو کیا نہیں کہہ سکتا ہوں طبیعت نے جواب دیا کہ ممکن ہے ناممکن نہیں اسی دن سے یہ شعر کہنے لگے اور سب سے پہلے ان کی زبان سے یہ مطلع نکلا۔

کیوں جاۓ بار بار نہ قاتل کے سامنے
پھرتی ہے شکل موت کی بسمل کے سامنے

دو تین دن میں غزل پوری کر لی اسی طرح رفتہ رفتہ دس بارہ غزلیں ہو گئیں مگر لحاظ کے سبب سے یہ میر صاحب کی خدمت میں نہ پیش کر سکے نہ اس کا ذکر کسی سے کیا۔منشی اکبرؔ حسین صاحب اکبرؔ ناروی ان دنوں مونگیر یا جمال پور میں ریلوے گارڈ تھے اتفاق سے چھٹی آۓ ہوۓ تھے ان کو بہت زمانے سے شعر و سخن کا مذاق تھا شعر بھی کہتے تھے اور نثر کے مضامین بھی لکھتے تھے اور متعدد اخباروں کے نامہ نگار بھی تھے اور نوحؔ صاحب سے مراسم بھی تھے شرماتے شرماتے انھوں نے اپنی غزلیں سنائیں انھوں نے سن کر بے ساختہ کہا کہ سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ابتدا میں اکثر شعر لوگ ناموزوں کہہ جاتے ہیں مگر ان شعروں میں کوئی ناموزوں نہیں ہاں غلطیاں ضرور ہیں جو اصلاح سے مٹ جائیں گی ایک دن اس کا ذکر انھوں نے میر صاحب سے کر دیا میر صاحب نے اصرار کر کے نوحؔ صاحب سے غزلیں مانگ کر دیکھیں اور اصلاح فرمائی اب جو کچھ لحاظ تھا جاتا رہا برابر غزلیں کہتے رہے اور وہ برابر اصلاح دیتے رہے۔میر صاحب نے نوحؔ صاحب کو حکم دیا کہ اگر تمھیں شاعری کا شوق ہے اور اس فن میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو کسی مسلم الثبوت اہل زبان استاد کا تم کو شاگرد ہو جانا چاہیۓ چناچہ ان کے ارشاد پر سب سے پہلے انھوں نے ایک غزل جناب منشی امیر احمد صاحب امیر مینائی لکھنوی کے پاس رام پور بھیجی منشی صاحب نے اصلاح تو دے دی مگر یہ لکھا کہ میں بہت عدیم الفرصت رہتا ہوں دوسرے تیسرے مہینے ایک غزل دیکھ دیا کروں گا اس سے زیادہ نہیں دیکھ سکتا یہ بات ان کو اس خیال سے پسند نہ آئی کہ اگر دوسرے تیسرے مہینے ایک غزل کی اصلاح ہوئی تو کیا نتیجہ ہو سکتا ہے جب تک ایک غزل کی اصلاح ہو گی یہاں بہت سی غزلیں تیار ہو جائیں گی اس صورت میں تمام و کمال کلام کا درست ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔آخر انہوں نے ڈرتے ڈرتے ایک غزل اصلاح کے لۓ نواب فصیح الملک بہادر حضرت داغؔ دہلوی کی خدمت میں بھیجی جب یہ غزل اصلاح ہو کر واپس آ گئی تو نوحؔ صاحب حضرت داغؔ دہلوی کے شاگرد ہو گۓ۔جب حضرت داغؔ سے اصلاح لیتے ہوۓ نوحؔ صاحب کو دو تین سال ہو گۓ بہت سی باتیں شاعری کے متعلق انھیں معلوم ہو چکیں رات دن استاد کے دوا دین کے سامنے رہنے لگے اور فرصت کے وقت بیش تر اشعار پر نگاہ ڈالی جانے لگی بیٹھے بیٹھے ایک دن خٰال آیا کہ جس شاعر کے رنگِ کلام کی تقلید کی جاۓ اس کا کلام تقلید کرنے والے کو بہت کچھ یاد ہونا چاہیۓ۔اس کے علاوہ میں اہل زبان نہیں زیادہ سے زیادہ زبان دان بن سکتا ہوں ممکن ہے کسی محاورے یا کسی لفظ کے متعلق کوئی اعتراض کر بیٹھے تو سند دینے کے لۓ دیوانوں کی ورق گردانی کرنی پڑے گی وقت پر اگر سند نہ پیش کی گئی تو ذلت ہے اس خیال میں گل زار داغؔ،آفتابِ داغؔ،فریادِ داغؔ اور مہتاب داغؔ کو انھوں نے زبانی یاد کرنا شروع کر دیا۔یادگار داغ اس وقت شائع نہ ہوا تھا اسی یاد کرنے کے دوران جب اس مطلع پر نگاہ پڑی۔

کون غم خوار الٰہی شبِ غم ہوتا ہے
اب تو پہلو میں مرے درد بھی کم ہوتا ہے

تو ان کی عجیب کیفیت ہوئی بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گۓ اور تمام دن اور تمام رات بے چین رہے بار بار مطلع کو پڑھتے اور عالم وجد میں جھومتے تھے ممکن ہے اور لوگوں کے دلوں پر یہ کچھ اثر نہ کرے لیکن یہ بہت متاثر ہوۓ اس وقت دل میں ٹھن گئی کہ میں استاد کو ضرور دیکھوں گا۔یہ لگی ایسی نہ تھی جو بجھانے سے بجھ جاتی مگر خیال ہوتا تھا کہ والدہ صاحبہ اجازت نہ دیں گی اور اعزا بھی ایسے طوفانی سفر کو پسند نہ کریں گے لہذا یہ کسی موقع کے منتظر رہے کچھ دنوں بعد ایک حیلہ انھیں مل گیا اور یہ بغیر کسی پر اپنے قصد کو ظاہر کۓ ہوۓ الٰہ آباد پہنچے اور وہاں سے جو آدمی ہم راہ تھا اس کے ہاتھ ایک خط اپنی والدہ صاحبہ کی خدمت میں بھیج دیا کہ میں باہر جا رہا ہوں یہ ابھی عرض نہیں کر سکتا کہ کہاں جاؤں گا اور کب تک واپسی ہو گی میرے بدخواہوں کی طرف سے کوئی خیال آپ قائم نہ کریں یہ سفر میں اپنے خوشی سے کر رہا ہوں اور میں زندہ ہوں اگر میں آپ سے اجازت مانگتا تو یقینی آپ اجازت نہ دیتیں میری اس گستاخی کو معاف فرمایۓ گا ادھر خط روانہ کیا اور ادھر خود تنہا حیدرآباد دکن روانہ ہو گۓ۔
منماڑ اسٹیشن پر پہنچ کر انھیں معلوم ہوا کہ اورنگ آباد کے قرنطینے میں دس روز تک حیدر آباد کو جانے والوں کو رہنا پڑتا تھا اور طرح طرح کی تکلیفیں ہوتی تھیں اس خبر سے ان کو بہت پریشانی ہویئ لیکن اس درجہ میں یہ جس میں سفر کر رہے تھے ایک صاحب اور حیدرآباد جا رہے تھے انھوں نے ازراہ ہمدردی ان کا تردد دیکھ کر ان کا حال پوچھا اور بہت اطمینان دیا اور کہا میرے پاس ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ موجود ہے اس کے سبب سے میں تمھیں بھی قرنطینہہ جانے سے بچا لوں گا۔ خیر الٰہ آباد کی روانگی سے کئی روز بعد یہ استاد حضرت داغؔ کے درِ دولت پر دس بجے صبح کو بخیریت پہنچ گۓ۔اور استاد کے قدم بوس ہوۓ اور انھوں نے اپنے گلے لگا لیا۔
وہ خط جو انھوں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں بھیجا تھا جب پہنچا تو یہاں قیامت برپا ہو گئی چونکہ ان کے ہزاروں جانی دشمن تھے اس باعث سے لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا ان کی والدہ سخت پریشان ہوئیں اول تو اکلوتے بیٹے کا اس طرح گم ہو جانا دوسرے یہ واقعات گذشتہ پر ان کی نظر تھی۔رات دن گریہ و زاری کے سوا ان کے لۓ کوئی کام نہ رہ گیا اعزا سمجھاتے تھے مگر دل نہ ٹھرتا تھا اکثر مقام پر انھوں نے تار بھیجا جہاں جہاں کے متعلق خیال تھا وہاں وہاں خط لکھواۓ متعدد اخباروں میں گم شدگی کی اطلاعیں شائع ہوئیں منشی اکبر حسین اکبرؔ ناروی کا اعلان نہایت ہی دل چسپ رہا ان کے الفاظ یہ تھے کہ ہمارے حضرت نوحؔ کو اگر کوئی پری لے اڑی ہو تو اسے حضرت سلیمان کی قسم وہ فوراۤ ان کے پتہ سے اطلاع دے اتفا وقت سے یہ مضمون بھی حضرت داغؔ کی نظر سے گزرا اور پھر یہاں سے جوابی تار بھی بھیجا وہ ان کی والدہ صاحبہ کی پریشانیوں کا اندازہ کر کے تڑپ اٹھے اور اسی وقت انھوں نے ان کی آمد و خیریت سے اطلاع دی اور خط میں بہت تسلی آمیز اس قسم کے الفاظ لکھے کہ وہ یہاں بہت آرام سے ہیں میں ان کو اپنے بچوں کی طرح رکھتا ہوں انھیں کسی قسم کی تکلیف نہیں تم اطمینان رکھو۔اس کے بعد متواتر سے نارے سے طلبی میں تاکیدی خط پر خط جانے لگے ناچار ہو کر بادل ناخواستہ نوحؔ صاحب نے استاد سے روانگی کی اجازت مانگی انھوں نے بمشکل تمام نہایت افسوس کے
ساتھ اس شرط پر رخصت کیا کہ جہاں تک ممکن ہو جلد آنا۔
اس کے بعد کہیں دور دراز مقامات کے مشاعروں میں انھیں شریک ہونے کا موقع نہ ملا تھا مگر الٰہ آباد میں جو مشاعرے ہوۓ ان میں اکثر میں یہ شریک ہوۓ۔اور جب طبیعت خوب جولانیاں دکھانے لگی یعنی مشق بھی بہت بڑھ گئی اور فکر سخن پر بھی اچھی طرح قابو پا لیا تو پھر حیدرآباد کی سوجھی کچھ تو حضرت داغؔ کا ارشاد کچھ اپنا ذاتی شوق یہ دونوں باتیں ایسی نہ تھیں جو ان کو چین سے گھر میں بیٹھنے دیتیں اس بار اپنے ہاں معقول انتظام کر کے اور اپنی والدہ صاحبہ سے اجازت لے کر نہایت اطمینان کے ساتھ دکن پھنچے۔اور یہاں پہ اصول و ضوابط تغیر و تبدل سے ترقی شعر یہ سب باتیں روز بروز ذہن نشین ہونے لگیں اور معلومات میں بھی وسعت پیدا ہوئی یہاں پر جناب سید ظہیر الدین صاحب ظہیر دہلوی شاگرد رشید حضرت ذوقؔ۔جناب داغؔ دہلوی اور ان کے نواسے سید اشتیاق حسین شوقؔ،مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر،شاد ؔ یمن،ذوقؔ۔مومنؔ،غالبؔ،آشفتہؔ اور ذوق صہبایہ وغیرہ جیسی شخصیت کے حضرات کے ساتھ مشاعروں میں حصہ لیا۔
جب قیام کو بہت دن ہو گۓ تو نوحؔ صاحب کی والدہ نے ان کی طلبی میں خطوط بھیجنے شروع کر دیۓ اگرچہ حضرت داغؔ کی پر لطف حضوری ایسی نہ تھی جس کی قدر یہ نہ کرتے لیکن مجبور ہو کر انھوں نے استاد سے اجازت چاہی کئی بار کہنے سنے سے بمشکل اس شرط پر راضی ہوۓ کہ جلد واپس آنا مگر اس اجازت کو بھی کئی ہفتے گذر گۓ نہ یہ آنا چاہتے تھے نہ انھیں منظور تھا آخر کار جب یہ یقین ہو گیا کہ ان کے اعزا اور بالخصوص ان کی والدہ سخت متردد اور پریشان ہیں تو روانگی سے دو روز پہلے تصویروں کا ایک گروپ سید رضی الدین صاحب کیفیؔ کے اہتمام سے کھنچوایا گیا اس گروپ میں موجود وہ لوگ ہیں جن کا قیام وہاں تھا۔نوحؔ صاحب کو حضرت داغؔ نے اپنے قریب جگہ دی ہے یہ تصویر نوحؔ صاحب کے کمرے میں آویزاں رہی اور رخصتی کے وقت ایک سونے کی انگوٹھی اور ایک گھڑی اور ایک جوڑا نہایت عمدہ کپڑا مع اپنی تحریری سند کے منشی امین الدین صاحب سے لکھوا کر اپنے دست خاص سے مرحمت فرمائی اور بہت کچھ دعائیں دیں اور بازو پر خود انھوں نے اور نواب ابو المعظم مرزا سراج الدین احؐد خاں صاحب سائل دہلوی مدظلہ کی بیگم صاحبہ نے روپے باندھے اور پھاٹک تک خود استاد اور ریلوے سٹیشن تک بہت سے احباب پھنچانے آۓ روانگی کے وقت یہ کب خیال تا کہ اب استاد سے دوبارہ ملاقات نہ ہو گی اور آئیندہ کے ارمان سب خاک میں مل جائیں گے اور یہ صحبتیں ہمیشہ کے لۓ خواب و خیال ہو جائیں گی۔
داغ دہلوی کے انتقال کے بعد ان کی جانشینی کو لے کر کافی جھگڑے تھے۔ بی الآخر یہ طئے پایا کہ جانشینی کسی ایک کو نہیں بلکہ قابل اور مستحق شاگردوں کو جانشین قرار دیتے ہوئے اسناد پیش کئے گئے، جن میں اول نام نوح ناروی کا رہا۔
آپ کے شاگرد تقریباً چار سو سے زیادہ ہیں۔ جن میں نور ناروی صاحب کے مطابق 40 تا 50 اچھے لکھنے والے تھے۔ اور اکثر میں سے خود صاحب دیوان و صاحب تلامذہ تھے۔

نوحؔ ناروی کی وفات 10 اکتوبر 1962میں ہوئی۔