غزل
جانے کیا جادو الٰہی قبضۂ قاتل میں ہے
تیر اس کے ہاتھ میں ہے زخم میرے دل میں ہے
جس نگاہ ناز سے تڑپا دیا تھا آپ نے
آج تک محفوظ وہ منظر ہمارے دل میں ہے
چارہ گر پوچھا ہے تو سن لے ٹھکانہ درد کا
آنکھ میں سینے میں پہلو میں جگر میں دل میں ہے
زندگی کا کچھ بھروسہ ہی نہیں ہے اے اداؔ
ایک مٹتی لہر گویا دامن ساحل میں ہے
بیگم سلطانہ ذاکر ادا