جانے کیا موج ہے وہ جس کی روانی تُوہے
تُومرِی پیاس رہا،اب مرِا پانی تُوہے
میرے ناخن کسی دیوار کے اندر ٹوٹے
یہ کہانی کا خلاصہ ہے، کہانی تُو ہے
وحشتِ چشم تجھے کیسے رہائی دے دوں
کسی روکے گئے آنسو کی نشانی تُوہے
آ،کہ دونوں کسی مضمون میں ڈھالےجائیں
تو نے لکھا تھا مرِا مصرعِ ثانی تُوہے
ایک ہی لفظ میں لے آؤں ازل اور ابد
توااگر ساتھ نبھائےکہ معانی تُوہے
ایک احساس بچایا ہے بڑھا پے کے لئے
مجھ پہ بیتی ہوئی صد رنگ جوانی تُوہے
خشک پیڑوں کو مرے گیت ہرا کر دیں گے
چشمِ سیراب !مرِی سبز بیانی تُوہے
میں نے ہارا جسےہر بار ،وہ ہمت میں تھی
ہارسہنے کے لئے بات جو ٹھا نی، تُوہے
طاقِ حیرت میں سجا کر مجھے اس نے یہ کہا
اس خرابے میں فقط رشک مکانی تُوہے
حمیدہ شاہین