غزل
ہجر لازم ہے تو یہ ہجر نبھائے جاؤ
جا رہے ہو تو کوئی ربط بنائے جاؤ
جو بھی اس دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہو
کیسے ممکن ہے کتابو سے بھلائے جاؤ
شاید یہ طرز کسی روح میں گھر کر جائے
عین ممکن ہے کسی دل میں بسائے جاؤ
یہ مری رات بھی امید لگائے ہوئے ہے
اس کے دامن سے کوئی صبح لگائے جاؤ
گفتگو کرتے اگر ساتھ میں ہوتے کچھ دیر
جاتے جاتے مجھے اک شعر سنائے جاؤ
میری تخلیق کو آواز بنا دو ماہمؔ
میری تحریر کی خاموشی مٹائے جاؤ
ماہم شاہ