Jab aabloo say karb kay dhary nikal pary
غزل
جب آبلوں سے کرب کے دھارے نکل پڑے
اذن سفر کے پھر سے اشارے نکل پڑے
جب گرم پانیوں سے مری گفتگو ہوئی
تو برف کے بدن سے شرارے نکل پڑے
اس وقت اپنے آپ کی مجھ کو ملی خبر
جب شہر گم شدہ سے شمارے نکل پڑے
امید بحر نو میں ابھی غوطہ زن تھا میں
کیوں گہرے پانیوں سے خسارے نکل پڑے
جشنِ طرب کی شہر میں جھوٹی صداؤں پر
چاروں طرف سے درد کے مارے نکل پڑے
خوف شب مہیب مٹانے کے واسطے
سورج کے ساتھ چاند ستارے نکل پڑے
دشتِ بلا میں چھوڑ کے رخصت وہ جب ہوا
تو چشمِ نم میں ڈوبے نظارے نکل پڑے
رستے کے پتھروں نے ہمیں جب بھی دی صدا
ہم نے تھکن کے بوجھ اتارے نکل پڑے
موجِ بلا نے ساحلوں سے ساز باز کی
دریا میں لے کے کشتی کنارے نکل پڑے
ہم کو نہ پا کے حادثے اپنے مقام پر
تابشِ ہماری کھوج میں سارے نکل پڑے
شہزاد تابشِ
Shahzad tabish