Jab aitbar tak gaya
غزل
جب اعتبار تک گیا
یقیں؛گمان؛شک گیا
اک اجنبی خیال سے
قلم بہک بہک گیا
مری زباں سے دکھ مرا
پھر آسمان تک گیا
قدم بھی ہم قدم نہ تھے
سفر بھی جیسے تھک گیا
تری کماں کا تیر تھا
اتر کے جاں تلک گیا
ہنسی میں کیا تھا سعدیہ
وہ جھینپ کر جھجھک گیا
سعدیہ سراج
Sadia Siraj