جب بھی آنکھوں نے تری دید کی حسرت کی ہے
آ کے رخساروں سے اشکوں نے شکایت کی ہے
میرے پہلو سے نکل کر تو جدھر چاہے بکھر
گل نے خوش بو کو یہ آزادی عنایت کی ہے
باندھ لو رختِ سفر پیڑ کے سوکھے پتّو!
شہر میں آج ہواؤں نے بغاوت کی ہے
اے خزاں! آ کے نہ برباد مرا گلشن کر
میں نے افزائشِ گل میں بڑی محنت کی ہے
ہو کے برجستہ خرابے میں چلے آتے ہیں
حیسے اِس دل نے غموں کی کوئی دعوت کی ہے
تیرے ہاتھوں کی شرابوں میں نشہ ہوتا ہے
بادہ خواروں نے یہ ساقی سے شکایت کی ہے
ظہیر الدین شمس