جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
میں نے اپنے لہجے کو تلوار کیا
۔
میں نے اپنے پھول سے بچوں کی خاطر
کاغذ کے پھولوں کا کاروبار کیا
۔
میری محنت کی قیمت کیا دے گا تو
میں نے دشت و صحرا کو گلزار کیا
۔
میں فرہادؔ یا مجنوں کیسے بن جاتا
میں شاعر تھا میں نے سب سے پیار کیا
۔
اس کی آنکھیں خواب سے بننے لگتی ہیں
جب بھی میں نے چاہت کا اظہار کیا
۔
اپنے پیچھے آنے والوں کی خاطر
میں نے ہر اک رستے کو ہموار کیا
۔
اس کے گھر کے سارے لوگ مخالف تھے
پھر بھی عارفؔ اس نے مجھ سے پیار کیا
عارف شفیق