جب حوصلہ وہ طائرِ بے پر میں آ گیا
منظر میں جو نہیں تھا وہ منظر میں آ گیا
کانٹے بھی پھول ‘ دیکھو مقدر سے بن گئے
سایہ بھی دیکھو دھوپ کی چادر میں آ گیا
خنجر بھی ہاتھ میں ہے تبسم بھی زیرِ لب
قاتل مرا خلوص کے پیکر میں آ گیا
دیکھا جو چشمِ ناز سے ساقی نے جام کو
آنکھوں میں جو نشہ تھا وہ ساغر میں آ گیا
یہ انتقامِ وقت تو دیکھے ذرا کوئی
غیروں کا طور لہجہِ دلبر میں آ گیا
سایہ رہا نہ ماں کا تو پھر آسمان سے
سورج اتر کے گویا مرے گھر میں آ گیا
دنیاۓ فکر و فن کو گوارا نہیں سعید
انداز اب سخن کا جو اکثر میں آ گیا
احمد سعید خان