Jab Dil Main Hararat Ho aur Zehn Ho soodaee
غزل
جب دل میں حرارت ہو اور ذہن ہو سودائی
پا لیتے ہیں منزل تب منزل کے تمنائی
حالات کے ہاتھوں ہم ڈوبے بھی ہیں ابھرے بھی
مرنے کی دعا مانگی ، جینے کی قسم کھائی
اس سمت بھی آئینہ ،اس سمت بھی آئینہ
اب کون تماشا ہو اور کون تماشائی
موسم سے گلہ کیسا ، خاروں سے شکایت کیا
پھولوں کے روئیے میں کانٹوں کی چبھن پائی
جب ہم نے زباں کھولی ، منوایا وجود اپنا
فوراً ہی زمانے کے ماتھے پہ شکن آئی
ہر دور میں عورت ہی کیوں ‘اگنی پریکشا’ دے ؟
تم بھی تو چلو اس پر جو آگ ہے سلگائی
تبسؔم اعظمی.
Tabasum Aazmi