جب دیئے دل کے سرشام ہی جلنے لگ جائیں
اشک بے ساختہ آنکھوں سے چھلکنے لگ جائیں
سر پہ الزام کے بادل ہوں تو ڈر لگتا ہے
کہیں تہمت کی گھٹائیں نہ برسنے لگ جائیں
بس یہی خوف ہمیں دور کئے ہے تم سے
روبرو آئو جو تم، ہم نہ بہکنے لگ جائیں
دیکھ کر ساتھ مرے باد صبا کو چلتے
کل کلاں کو کہیں اشجار نہ چلنے لگ جائیں
رشک آتا ہے مجھے دیکھ کے اکثر ان کو
پیڑ جو بار۔ثمر سے کہیں جھکنے لگ جائیں
یوں بھی ہوسکتا ہے ان موم سی نظروں کا اثر
دل جو سینے میں ہیں پتھر کے دھڑکنے لگ جائیں
رضیہ سبحان