جب سے قلم کو خامۂ مانی بنا لیا
ہم نے جگر کے خون کو پانی بنا لیا
یوں ہم نے شہر شہر تری داستاں کہی
ہر سنگِ رہ کو دشمنِ جانی بنا لیا
میں نے پرو دیئے ترے بالوں میں سرخ پھول
اور اپنے روز و شب کو کہانی بنا لیا
کیا جانے کس خیال میں اُٹھی تھی وہ نظر!
اور ہم نے اُس سے شہرِ معانی بنا لیا
خالدؔ وہ سانحہ تو اُسے یاد بھی نہیں
جو ہم نے عمر بھر کی نشانی بنا لیا
خالد شریف