Jab Gul ki Qabaoon say Gulshan ki Hawa Uljhi
غزل
جب گل کی قباؤں سے گلشن میں صبا الجھی
ہاتھوں کی لکیروں سے رہ رہ کے حنا الجھی
احساسِ دمیدہ کے الفاظ دریدہ ہیں
ہونٹوں پہ تصور کی آ آ کے دعا الجھی
یہ تشنہ لبی دیکھو ساغر کے کھنکتے ہی
شیشے میں پری اتری میکش سے بلا الجھی
پھر چشمِ تحیر نے سجدے کیے جھک جھک کر
جب گردشِ دوراں سے دامن کی ہوا الجھی
اِس صحرا نوردی کا عالم ہی نرالا ہے
ہر خار مغیلاں سے چھالوں کی وبا الجھی
گھنگھور گھٹاؤں نے چہرے کو چھپایا ہے
اُس زلف پریشاں سے تھم تھم کے ہوا الجھی
بنتی ہے بگڑتی ہے پھر خود ہی سنورتی ہے
تقدیر مسلسل کیوں تم سے ہی ضیاء الجھی
سید محمد ضیا علوی
Syed Mohammad Zia alvi