loader image

MOJ E SUKHAN

19/04/2025 18:20

جدید اسلوب سخن کا نمائندہ شاعر طارق نعیم   تحریر عرفان خانی

جدید اسلوب سخن کا نمائندہ شاعر طارق نعیم
آنکھ سے آسمان جاتا ہے کلیات
تحریر عرفان خانی
ایک دور تھا کہ انسان کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا آہستہ آہستہ انسان نے شعور کو بروۓ کار لاتے ہوئے سیاہی ایجاد کر لی ہو گی اور پرندوں کے پروں سے ہوتا ہوا قلم تک پھر پتھروں , کھالوں پیڑوں کی چھالوں پر آ پہنچا ہو گا یہی نہیں پھر انسان نے سو چ وچار کر کے تختتی ایجاد کر لی ہو گی یہاں سے ہمارا دور شروع ہوتا ہے تختی , سلیٹ, کاغذ, کمپیوٹر , ٹیلیویژن , لیب ٹاپ موبائل , سیٹلائٹ , اے آئی دور تک ہم بھی شامل حال ہیں ماسواۓ پتوں کھالوں , پتھروں پر لکھنے یا پڑھنے کے دور کے۔ ہم نے جدید ٹیکنالوجی کا دور دیکھ لیا ۔کتابیں شائع ہوتی بھی دیکھیں کتابیں مطالعہ بھی کیں اک حسین اور خوبصورت دور سے ہم گزر کر اب پی ڈی ایف کے دور میں داخل ہو چکے ہیں کاپی یا ڈائری پر لکھنے کا دور ہمارے دور میں ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ کمپیٹور سکرین سے ہم لیب ٹاپ سکرین اور اب موبائل سکرین پر پہنچ چکے ہیں اس سارے دور کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے ہماری دوسری یا تیسری نسل , قلم دوات , سلیٹ, یا کتاب کو نہیں دیکھ پائے گی کتاب شائع کرنے کا دور ختم ہونے کو ہے اب کتاب پی ڈی ایف دور میں داخل ہو چکی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے وہ تمام راستے بند کر دیئے ہیں جو ہمارے اور ہم سے پہلے کے دور میں تھے اک وقت آۓ گا کہ تمام لائبریریز بھی ختم ہو جائیں گی اور پی ڈی ایف لائبریز ہوں گی کسی کے گھر میں کتاب نہیں ہو گی مجھے تو لگتا ہے کہ اک وقت ایسا بھی آۓ گا قلم , وغیرہ کا بھی دور ختم ہو جاۓ گا جیسے موبائل نے گھڑی , کیلنڈر , خط , ٹیلی ویژن کےساتھ ٹیلی فون سیٹ , ٹیپ , کیسٹ , سی ڈی, ٹارچ کا دور ضم کر لیا ہے ایسے ہی کتاب کا دور اور قلم کا دور بھی یہ موبائل ضم کر لے گا ۔ یہ بات اس لئے کہنی پڑی کہ جس کتاب پر آج کچھ لکھنے جا رہا ہوں وہ اتنی خوبصورت ہے کہ بار بار اس کے سرورق کو اس کے خوبصورت ملائم کاغذ و جلد کو دیکھنے , چھونے کا دل کرتا ہے ایسی محبت کتاب سے اور ایسی خوشبو کتاب سے ہم ہی حاصل کر سکتے ہیں جو کتاب کی اہمیت کو سمجھتے ہیں پی ڈی ایف کی بناوٹی کتاب میں ایسی خوشبو کہاں مل پائے گی یہ سچ ہے کہ کتاب کا حسن کتاب ہی ہے خیر ہم نہ ہو ں گے نہ ہمارے دور کی کتاب سے چاہتیں ہوں گی ۔ نئی نسل کو ویسے بھی ہم نے آرٹیفیشل دور دیا ہے اس نسل کا قصور تو نہیں قصور ہمارا ہے جنہوں نے نت نئی سہولیات میسر کیں نئی ایجادات کی جانب لایا یہی تعلیم اب وہ سب کھا جائے گی جس کی خوشبو سے ہم سانس بھرا کرتے ہیں خوشبو سے سانس بھرنا ہو تو ہمیں ایسی کتب کا مطالعہ کرنا ضروری ہے جو ہمیں کسی نے تحفہ بھیجیں یا ہم نے ذوق سے خریدی ہوں ایسی ہی اک کتاب ممتاز شاعر طارق نعیم کی تخلیق کر دہ کلیات ہے جس کا نام "آنکھ سے آسمان جاتا ہے ” اس کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھےکتاب کی خوشبو اور اس میں موجود کلام کی تازگی نے اوپر درج تحریر کی جانب لایا ہے یہ کتاب قریب پانچ سو صفحات کے ساتھ غزل اور نظم پر مشتمل ہے پانچ سو صفحات مطالعہ کرتے وقت کہیں مجھے تھکن اکتاہٹ یا سر درد کی کیفیت سے گزرنا نہیں پڑا اس کی وجہ اس کتاب کے کاغذ کی خوشبو , اس میں شائع ہونے والے کلام کی تازگی ہے اور ختم ہوتے ہوئے کتاب کے دور کا دکھ بھی ہے جو بھی ہے کتاب سے محبت کا رشتہ ہے اور یہ رشتہ ہمارے سامنے ہمارے ہاتھوں سے جدید ٹیکنالوجی بڑے ہی معصومانہ انداز میں چھین رہی ہے جس پر ہمارے ہاتھ ہماری آنکھیں ہمارا دل ہمارا دماغ نوحہ کناں ہیں جہاں ایسے دور کی شروعات ہو چکی ہے وہیں پر ممتاز شاعر طارق نعیم کے چوتھے مجموعے "آنکھ سے آسمان جاتا ہے ” کی اشاعت بھی ہمارے لئے اک خوشی کی نوید ہے کہ ابھی ہمارا دور ہم جیسا ہی ہے ممتاز شاعر طارق نعیم کے اس سے قبل تین مجموعے منظر عام پر آ کر اپنے حصے کی پذیرائی پا چکے ہیں اور یہ کتاب ,آنکھ سے آسمان جاتا ہے چوتھا مجموعہ ہےجو کہ کلیات یعنی تمام کتب سے منتخب کلام پر مشتمل ہے ایسی کتاب جو کلیات پر مشتمل ہو اس کا مطالعہ کرتے وقت قاری اور نقاد دونوں کا فیصلہ سامنے آتا ہے قاری ایک ہی وقت میں بہت سارے مجموعوں کا آسانی سے مطالعہ کر کے اپنی پسند کے شعر کو دوسروں تک پہنچانے کا سبب بنتا ہے جو کہ مقبولیت کی سند ہوتا ہے نقاد کلام کو شعری محاسن سے پرکھتا ہے اور شاعر کے کلام کو قدامتِ ادب سے لے کر اج کے دور تک لاتا ہے جو کہ شعری محاسن سے گزار کر شاعر کے کلام کی جدت, اور روایت کا چناو کرکے اس کو جدید روایت, منفرد, الہامی, آفاقی, رومانوی, جمالیاتی, حقیقی, مراقبے, وجد, کچے خیال یا غرض یہ مختلف امکانِ سخن کے مقام کے سفر کا نمائندہ جانچ کر اپنی راۓ میں پیش کرتا ہے ۔ یہ کتاب کلیات کے نام سے منسوب نہ ہوتی یا شاعر کا ادبی قد اس سطح پر نہ ہوتا تو مجھے ان کے شعری شعور کو پرکھنے کے لئے ان قواعد و ضوابط کی ضرورت نہ پڑتی چونکہ شاعر عروج سخن پر ہے ا س لئے دیکھنا یہ ہے کہ یہ کلیات ان شعری قواعد وضوابط جن میں سے چند یہ ہیں , فصاحت , حسنِ شعریّت , حس آہنگ , حسن قافیہ , حسن شعر درجہ بندی , تخیل , محاکات , حسن ترتیب گرامر , شوخیء کلام , حسن تبدیلیء اقدار , حسن نقل قول , حسن تراکیب ,, حسنِ تشبیہ , حسن استعارہ , حسن کنایہ , حسنِ تکرار , تطبیق , تنسیق , تلمیح , ایہام , استخزام , تعلیل ,, تضاد , مبالغہ ,صنعت تبلیغ , غلو , اغراق , تجرید, جدید, روایت, زبان وغیرہ پر اترتا ہے کہ نہیں ۔ شعر کو جانچنے کے لئے علم عروض میں مختلف انداز محاسن ہیں جن کا ذکر آنے والی کتاب ” تعمیر سخن ” کے تبصرہ میں ہوگا ابھی ہم سب سے پہلے کلیات میں موجود چند اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں اور اشعار کے خیال کی پختگی کو جانچتے ہیں ۔ "آنکھ سے آسمان جاتا ہے ” کے شاعر کا تخیل صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ پختہ خیال کا مالک ہے میری علمی بساط کے مطابق یہ شعر تین کیفی ہے ایک , نیت کا صاف ہونا اور ان کائنات کو دیکھ لینا جو پر دے میں ہیں, دوسرا احسان فراموش کے رویہ پر اور تیسرا غلطی نہ بھی ہو تو غلط کو معاف کر دیا جاۓ اس کے باوجود معاف شدہ شخص بضد ہو کہ نہیں تم نے یہ کیا تم نے وہ کیا ۔ اس شعر میں عالم امکاں کے معانی کی اتنی وسعت ہے کہ خیال کو جتنا کھولیں مختلف پرتوں میں کھلتا ہی جاتا ہے ۔ مقصد یہ کہ اس شعر میں تخیل کی 4 صورتیں ہیں , حقیقی , روایتی , جدتی امتزاج , کے ساتھ مجازی , صورتیں بھی اس شعر کا خاصا ہیں , اگر ہم آئنہ کو (دل ) اور عالم امکان کو (کائناتیں ) دیکھیں تو قاری کو پہلی کیفیت میں ملے گا , اگر عالم امکان کے معانی بدل کر دیکھیں تو کئی رنگ میں یہ شعر کھلے گا مصرع اولی میں لفظ (میں نے ) اور لفظ (وہ )دو حالتیں بیان کی ہیں اس لئے ہم (وہ ) کی حالت کو دیکھیں گے اگر (میں) کی حالت دیکھیں تو شاعر کو دیکھیں گے یعنی مغروریہ , گھمنڈ یہ وغیرہ کچھ اشعار ایسے ہوتے ہیں جن کی تشریح کئی موضوعات کی عکاسی کرتی ہے اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ کس خیال سے شعر کو دیکھتا ہے یا آپ جو شاعر نقاد ہیں ۔ جیسا کہ یہ شعر مطالعہ فرمائیے۔ ذرا سا آئنہ میں نے کیا ہے صاف تو وہ تمام عالمِ امکاں دکھانے لگ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیسا ہی اک اور شعر دیکھیں جس کے الفاظ کے معانی جتنی پرت میں بدلیں شعر اسی پرت کی جانب لے جاتا ہے تخیل اپنی جگہ مگر الفاظ کا چناؤ جو نہ صرف قاری کو بلکہ نقاد کو مجبور کر دیتا ہے وہ اس کی پرتیں وضاحت سے بیان کرے شاعر کے عین مطابق کوئی کوئی شعر کھلتا ہے ورنہ جس کیفیت میں شاعر نے شعر کہا ہوتا ہے اصل کل تو شاعر ہی جانتا ہے شاعر کی سوچ کا دھارا اتنا سنجیدہ ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی سخنی قوت کا مظاہر کرتا ملتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں کو تحریک بھی دے رہا ہے اس میں استعمال ہونےوالا لفظ (جام سفال) کی معانوی شکل تو” مٹی کا پیالہ” ہے مگر ہم اس کے معانی کو اشعار میں لیں گے کیونکہ شعر میں بات کوزہ گر کی ” کون سے ” جمع میں ہوئی اس لئے اس کو ہم! ہم عصروں کے کھاتے میں لائیں گے ۔ شعر مطالعہ فرمائیں دیکھنا اس طرح کے جامِ سفال کون سے کوزہ گر بناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر دور میں کسی بھی اچھے لکھاری کو کسی نہ کسی طرح کسی دوسرے کے خیال کے ساتھ جوڑے جانے کی جھوٹی کہانی دوسرے تک پہنچائی جاتی ہے عام الفاظ میں (چھڈو جی اے کوئی شاعر نئیں ) یاپھر اسے کہا جاتا ہے کہ اس کو پڑھو وہ بڑا کمال کا شاعر ہے وغیرہ وغیرہ جب ایسی جیلسی کی باتیں شاعر تک پہنچتی ہیں تو شاعر ان کا جواب بھرپور شعری قوت سے دیتا ہے یہ شاعر کے مزاج کا انوکھا پن علوم حکمت سے سامنے آتا ہے جس میں بول رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہو گا اس لئے جاو جا کر اسے بتادو مجھے نصیحت کرنے کی بجاۓ اپنے گریبان میں جھانکو کہ تم کیا ہو۔ شعر مطالعہ فرمائیں۔ میرے لہجے سے تو اندازہ ہوا ہو گا مرا آپ واعظ کا بھی انداز_ بیاں دیکھئے گا ۔۔۔۔۔۔ ایسا کہ اک شعر جو رویوں کی جانب بخوبی دھیان دلواتا ہے جس میں شاعر بولتا ہے کہ شاعر ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ کی بات پہ خاموش ہوں ورنہ صاحب آسمانوں کو تو میں صرف دھواں جانتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ زمانے کا رویہ ہمیشہ سے ایسا ہے وہ بات کا بتنگڑ بنا کے دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ تاریخ لکھنے والے بھی کچھ تو بکاؤ ہوتے ہیں تو کچھ کنویں کے مینڈک جن کو صرف کنویں ہی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہی لکھنا ہوتا ہے یوں سمجھ لیں کہ ہر دور گروہ بندی اور ٹولی کی شکل میں آپ کو ملے گا کچھ ایسا ہی شعر جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ کسی کی بات پر مت جانا وہ کچھ بھی کہہ دے گا سو مجھ سے اک بار پوچھ لینا پھر میرے کردار کے متلعق فیصلہ لینا میں تمہیں ساری کہانی سنا کے جاؤں گا ۔ شعر دیکھیں یہ قصہ گو تو بہت بات کو بدلتے ہیں میں آپ اپنی کہانی سنا کے جاؤں گا ۔۔۔۔۔ اب بات قصہ گو کے ہاتھ نہیں آنے والی اک اعلان ہے جو شاعر روز سنتا ہے ممکن ہے اس اعلان کا ہی اشارہ ہو جیسے اسے کوئی لینے آیا ہے اور وہ کہہ رہا ہو کہ نہیں ابھی نہیں میں ابھی نہیں جانا چاہتا ہوں میں جانے سے پہلے سب کو بتاؤں کہ میں جا رہا ہوں اب "جانے” کو بھی آپ ظاہری اور باطنی طور کھولیں گے تو معلوم ہو گا یہ شعر شاعر کے وجدان کا کمال شعر ہے جس میں زمینی ہجرت کا بھی ذکر کرتا ہے دنیا سے بھی ہجرت کی بات کرتا ہے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں فرشتے اور انسان سے بھی مخاطب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو میرا ارداہ نہیں ہے جانے کا میں جب بھی جاؤں گا سب کو بتا کے جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شعر اوپر درج اشعار کی گواہی دیتا ملتا ہے کہ شاعر وجدان سے اور مراقبے سے حاصل شدہ وہ وہ اصیل خمیر کا ذائقہ پیش کر رہا ہے جسے ہم روحانیت سے جڑے خیال پر پرکھ سکتے ہیں ۔ گیا ہوا ہوں کسی اور آسمان پہ میں زمیں تو کیا مرا خود سے بھی رابطہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا گہرا شعر ہے اس شعر کو کھولنے کے لئے شاعر سے زیادہ قوت علمی درکار ہے ,اگر آپ بغور مطالعہ کر رہے ہیں تو اس شعر کے متعلق راۓ دیں ۔ 1۔آسمان بمعانی (والد) زمین بمعانی (ماں) 2۔ اصیل حالت آسمان , بمعانی (آسمان) , زمین بمعانی( زمین) میرے نزدیک تین حالتیں ہیں ۔ کسی ایک حالت کی تشریح کیجۓ ۔ اس شعر کا بغورمطالعہ کیجۓ ۔۔
آسماں تو مرا ہدف نہیں تھا
میرے پیچھے زمیں پڑی ہوئی تھی
چند اشعار آپ کے ذوق_سخن کے لیے۔
خود اپنے آپ ہی اڑنے لگوں گا کچھ دنوں میں
ہوا کے ساتھ مرا مسئلہ ہے ابھی
کچھ دوستوں میں ایسا تھا زعم_ سخنوری
جس نے بھی چار شعر کہے میر ہو گیا
زمین اتنی نہیں ہے کہ پاؤں رکھ پائیں
دلِ خراب کی ضد ہے کہ گھر بنایا جاۓ
غضب تو یہ ہے اسے کیمیا سکھاتے ہوئے
ہزار بار مجھے آگ سے گزارا گیا
ملتے جاتے ہیں اسے چاہنے والے جتنے
وہ حسیں اور حسیں اور حسیں ہوتا ہے ۔
وہ کہہ گیا ہے لکیریں ہیں عمر کوئی نہیں
کسی کو ہاتھ دکھائے ہیں آج ہی ہم نے
اب پریشاں ہے کہ اس بار کرے کیا اس کا
وہ جو انجانے میں شہکار بنا بیٹھا ہے
تم پوری تیاری رکّھو اپنے سفر کی
اس کا کیا ہے کسی بھی وقت بلا سکتا ہے
کیسے کیسے پانیوں نے اس سے مانگا تھا خراج
ریت نے ساری کہانی ہی سنا دی نہر کی
اس مجموعہ میں اشعار بڑی ہی شان سے شاعر کے شخصی کرادر کو فن کو نمایاں کئے ہوئے ہیں کسی بھی شعر کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ شاعر نے کچے خیال کو عیوب محاسن کو اس مجموعہ میں جگہ دی ہے ہر لحاظ سے یہ مجموعہ ان معیاری اشعار پر مشتمل ہے جو نقاد کے لئے سوال پیدا کرتا ہے کہ وہ اس کا بار بار مطالعہ کرے اور اشعار کی گہرائی کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اس مجموعہ کو جدید , منفرد اور آفاقی خیال سے مزیں مجموعہ قرار دے یا پھر الہامی امکانات کے شمارے میں لائے ۔ شعر کو پرونے کے لئے شاعر نے اختیاراتِ شاعرا نہ کا استعمال بھی اگر کیا ہے تو وہ محاسن شعر کی حدود میں رہ کر کیا ہے اضافتوں کا استعمال بھی ایک حد تک قائم رکھا ہے جس سے حسنِ شعر میں کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی بھاری آواز والے الفاظ کے استعمال سے روانی میں سلاست میں کوئی فرق آیا ہے جہاں مشکل الفاظ بمعانی استعمال کئے ہیں وہیں بحور کی بناوٹ سجاوٹ کے معیار کو گرنے نہیں دیا , روایتی انداز کو بدل کر نئے خیال سے مزیں کر کے شعری کیفیات کو باہم کیا ہے جس سے خیال کو منتشر ہونے کا موقع نہیں ملا یہی وجہ ہے کہ جدت کے خیال نے قاری کو مجبور کیا کہ وہ اگے بڑھے سب سے بڑی بات اشعار مشکل ترین ہونے کے باوجود اک بار پڑھنے سے یاد ہو جاتے ہیں مشکل پسندی کو عام فہم میں بدلنے کا انداز بھی جدید ادب میں منفرد ہے فصاحت , حسن_شعری کے تمام اسلوب کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے تلمحیات , تشبیہات , کو اتنے اچھے اور عمدہ ترین طریقہ سے باندھا گیا ہے کہ مصرع اولی اور مصرع ثانی میں کھل کر بیان شعر کو پیش کیا ۔ شاعر کی انفرادیت اس کے نہ صرف علومِ سخن سے نمایاں ہے بلکہ تخیل کی پرواز بھی دوسروں سے منفرد ہے جہاں آفاقی خیال کے شعر ہیں وہیں وجدانی , مراقبہ , اور الہامی خیال کے اشعار کے ساتھ غم دنیا , محبوب کی روا روی محرکات قلبی و ذہنی سوچ کی پرواز کے اشعار بھی موجود ہیں رومانوی امتزاج , بدلتے ہوئے رویوں کی روداد , اور زمانہ حاضر کے حادثات کو بھی شعر کا حصہ بنایا گیا ہے اچھے شاعر کا یہی خآصا ہے کہ وہ دماغ کی سوچ , قلبی بصیرت،آنکھ کی بصارت , علمی بصیرت , علوم سخن کی قوت کو بروۓ کار لاتے ہوئے ایسے موضوعات کا چناؤ کرے جن کے مطالعہ کے بعد قاری کو محسوس ہو کہ عالم سخن کے جتنے بھی امکان ہیں قاری نے ان کا صرف نظارہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے اپنی ہی محسوسات کا مسکن پایا ۔ مجھے اس مجموعہ پر رائے میں یہ کہنے کے لئے کسی قسم کا شک نہیں کہ یہ مجموعہ ادب میں ایک اہم ادبی نسخہ ہے جس میں سخن کا مزاج جدید ,انداز فکر جداگانہ , تراکیب سخن علوم سخن سے آراستہ , نئی مشکل ترین ردیف کی بندش سلیقہء سخن , زبان کے اعتبار کا معیاری چناؤ , خیال کی سلاست روانی کا بہترین بہاؤ , فصاحت و حسن شعری کا رکھ رکھاؤ, دانش و علم کی فراونی , تجربات و مشاہدات کا بر محل استعمال , تلمیح و تشبیہ کا حقیقی روپ , کہانی , قصہ , خواب , کو ایک مصرع نہیں بلکہ ذو معانی دو الفاظ میں کئی پرتوں کا بیان احسن طریقہ سے شعر میں بیان کرنا ۔ خوش کلامی , تہذیب ادب کو خاصا بنانا , محبت و عشق کے خیال کو بھی اس طرح بیان کرنا جس میں نمائشی چھچھورے پن کا ذکر تک نہ ہو بے وفائی , جدائی , کے مضامین میں اخلاقی گرواٹ سے پاک رکھنا, غم کو رو دھو کر بیان نہ کرنا بلکہ غمگین صورت کو اس کی کیفیت میں ڈھال کر سلجھے ہوئے الفاظ کا استعمال کرنا , نفرت , گلہ شکوہ , کو بھی ملائم شگفتہ , شائستہ الفاظ کا پیرہن دے کر بیان کرنا , امید ملن , خواہش محبت کا اظہار نفیس انداز میں کرنا ادبی قد کو اپنی حد میں بیان کرنا کبھی کبھی سر اٹھا کر بات کرنا یہ سب ماہرانہ ,نقادانہ , استادانہ , علومانہ , فلسیفانہ , شاعرانہ دسترس کا کمال ہنر ہے , جو ہرکسی کا خاصا نہیں اور یہ بھی تسلیم کرنا کہ شعر مطالعہ فرمائیں طارق نعیم ایسا تو ہونا نہیں کبھی سارے ہی اچھے شعر ہوں تیرے کہے ہوئے ۔۔۔۔ اس مجموعہ میں تمامی اشعار پر اظہار خیال کے لئے کتاب چہرہ پر ممکن نہیں ہے بلکہ کئی صفحات درکار ہیں جو ایک اور 500 صفحات پر مشتمل کتاب کی جانب لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں طارق نعیم کی شخصیت شفقت اور محبت بھرے کردار کی آئینہ دار ہے وہ بات بھی کرتا ہے تو انتہائی سلجھے ہوئے انداز میں ملتا بھی ہے عاجزانہ انداز میں سلیقہ گفتگو ہو یا ادب کا قرینہ وہ ہر زوایہء اخلاق کا نہ صرف قائل ہے بلکہ عملی طور پر اس کا نمونہ بھی پیش کرتا ہے وہ اگرشعر میں اپنے ہم عصر کو کچھ کہتابھی ہے تو ان منفی رویوں کو رد کرتا ہے جو کردار کشی یا مغرورانہ رویوں کو جنم دیتے ہیں وہ گروہ بندی کے سہارے کا قائل نہیں وہ اپنی شعری قوت کے سہارے سبقت کا قائل ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا ترتیب دیا ہوا کلیات برصغیر کے نمائندہ شعراء کی صف میں شامل ہے یہ سبقت شاعر کی فنی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے "آنکھ سے آسما ن جاتا ہے ” پورا مصرع ہے اس ایک مصرع کو سمجھنے یا اس مصرع کی تشریح کے لئے شاعر کی علمی و ادبی بصیرت سے اوپر کی بصیرت درکار ہے بصورت دیگر اس گہرائی تک پہنچنا آسان نہیں ہم شعر کی ساخت دیکھتے یا صوت سنتے ہی وااااہ واااااااہ کر بیٹھتے ہیں کیوں ہمیں ساخت بھلی دکھتی ہے اور صوت سماعت کو سریلی محسوس ہوتی ہے ہم نے کبھی شعر کی گہرائی کی جانب توجہ نہیں دی, ہم نے جو کتابوں میں پڑھا اسی کا رٹا لگائے ہوئے انہی شعراء کے اشعار کی تشریح نقل کر کے کتب کے ڈھیر لگا دیئے جوہم سے پہلے لکھنے والے لکھ گئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے کس پر لکھا ہم اپنے دور کے اشعار کی تشریح کیوں نہیں کر پائے یا تو ہمارے دور کے اشعار ہماری علمی و ادبی بصیرت کے قابل نہیں یا پھر ہماری علمی و ادبی بصیرت اشعار کے قابل نہیں میں نہ تو ماہر علم عروض نہ کوئی نقاد مجھے صرف ذوق شعر کی طلب اس جانب کھینچ لاتی ہے اپنی کاوش سے کوشاں ہوں اس لیے میں اپنے مزاج کے مطابق تحریر کا قائل ہوں چاہے اچھی ہو یا نہ ہو ہمیں چاہئے کہ اپنے دور کے شعراء کے کلام کو پرکھیں اس کی گہرائیوں میں جائیں نہ کہ رٹے رٹاۓ اسباق غالب و میر کو ہی پڑھتے پڑھاتے رہیں سو اپنی راۓ اپنے الفاظ کو اگلے دور پر لکھ کر چھوڑ دیں ۔ ملکی سطع پر اگر طارق نعیم کے کلام کو دیکھیں تو ان کا شمار ان شعراء میں جگہ بنانے میں کامیاب ملتا ہے جو اس وقت برصغیر کے نمائندہ شعراء کی فہرست میں شامل ہیں اگر ہم ابھی یہ فیصلہ کریں کہ برصغیر کے صف اول کے شعراء جو اس دور میں موجود ہیں ان میں صف اول کا نام کون سا ہے تو یہ درست نہ ہو گا کیوں کہ ابھی یہ سب اس دور سے گزر رہے ہیں اس کا فیصلہ اگلے ادوار میں ہوگا وہ اس لئے کہ ان کا تعین ہمارے دور کے نمائندہ نقادان سخن نہیں بلکہ ہمارے دور کے بعد کے نقادان قلم سے ہو گا ہم میں سے کوئی نقاد اگر راۓ دیتا ہے تو وہ آئندہ کے نقاد کو سہولت فراہم کرتا ہے کہ اس کلام کو ہم نے ان زاویوں سے پرکھا ہے جیسے ہم سے پہلے کے رائے دہندگان نے ہمیں امیر خسرو, میر تقی میر , غالب , دامن , آتش , جیسے شعراء کو سمجھنے میں سہولت فراہم کی جس کی وجہ سے ہم انہیں فیصلہ کن رقم کرتے کرتے آج تک رقم کر رہے ہیں ایسے ہی ہم رائے دہندگان آنے والے نقادان سخن کو سہولت فراہم کر رہے ہیں ۔ سو فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ رہی بات مشہور یا شہرت یافتہ کی تو اپنے وقت میں عوامی سطع پر نمایاں ہو جاتی ہے جو صرف شاعر کی زندگی تک ہوتی ہے اس کے بعد تو اس کا کلام سفر کرتا ہے , کلام اور شہرت کی اہمیت کا فرق یہی ہے کہ پہلے نام کلام کو لے کر سفر کرتا ہے اور مرنے کے بعد کلام نام کو ساتھ لے کرسفر کرتا ہے اس لئے ہمیں شہرت کی عارضی بناوٹ کے ساتھ کلام پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ آپ کا کلام ہی آپ کے ادبی سفر کا ضامن ہے شہرت آدھے راستے کی ساتھی ہوتی ہے اور کلام منزلِ فنا تک کا ساتھی ہوتا ہے شرط یہ ہے کلام میں قوت مقابلہ کی منفرد خاصیت ہو اگر کلام میں یہ قوت نہ ہو تو آپ تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ہر دور میں ہزاروں کی تعداد میں شاعر تھے اور آئندہ بھی ہوں گے جو تھے ان میں آج کتنوں کا کلام اس قوت سے نمایاں ہے اور کتنوں کا کلام اور نام بھی نہیں رہا، سو ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے , وہ والا سبق جو طارق نعیم کے کلیات میں ہمیں ملتا ہے شعر کے دم پر سفر کرنا اور یہی سفر طارق نعیم نےچنا جس کی وجہ سے ہم آج طارق نعیم کے ادبی و شعری شعور کو پرکھنے , جانچنے کی کاوش میں مگن ہیں طارق نعیم کا یہ سفر یہی نہیں بلکہ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ آنے والے ادوار میں بھی پرکھنے جانچنے کے عین معیار پر ہوگا جس پر فیصلہ سازوں کو فیصلہ دینا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ طارق نعیم کے کلام میں اتنی قوت ہے کہ اس کا کلام اس کے نام کو لے کر چلے گا ان شاء اللہ غرض یہ کہ "آنکھ سے آسمان جاتا ہے ” ادبی دنیا کے لئے بہترین معیاری ادبی نسخہ ہے جس کے مطالعہ سے ان گنت ادبی و علمی امکان کھلتے ہیں۔اس بہترین مجموعہ کی اشاعت پر طارق نعیم کو مبارک پیش کرتے ہوئے میری دعا ہے کہ طارق نعیم کی سخنی طاقت کو رب جلیل منفرد مضامین غیب سے عطا کرتا رہے اور وہ رہتی دنیا تک منفرد حیثیت کا نمائندہ رہے آمین۔ عرفان خانی فونڈر عالمی ادب اکادمی
عرفان خانی
فونڈر عالمی ادب اکادمی
Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین