جذبۂ عشق و وفا میں ہوکے تو سر شار آ
رزم گاہ زیست میں پھر برسرِ پیکار آ
یہ تو بیٹھے ہیں مسیحائی کی مسند پر مگر
تو تو ان کے سامنے بن کر کبھی بیمار آ
تجھ کو خود ہی شوق سے سر پر بٹھائیں گے سبھی
سامنے دنیا کے بن کر صاحب کردار آ
جادہء علم و عمل کا پہلے بن تو شہسوار
بعد میں تن پر سجا کر جبہ و دستار آ
قلب مضطر کو سکوں پھر بھی بہت مل جائے گا
خواہ پھولوں کے عوض لے کر نکیلے خار آ
جانے کب سے صرف آ آ کی لگائے ہوں میں رٹ
اے ستم گر چند لمحوں کو پۓ دیدار آ
لوگ کیا کیا تیری بابت رائے قائم کر چکے
لے کے گل اخلاص کے محفل میں اب مختار آ
مختار تلہری ثقلینی