جسے نظروں کی صورت اپنی آنکھوں میں بسایا تھا
اسی اک خواب نے ہر موڑ پر مجھ کو رلایا تھا
ترے اک قہقہے نے جس کو اک پل میں گرا ڈالا
گھروندا وہ تو میں نے اپنے اشکوں سے بنایا تھا
خوشی سے اڑتے اڑتے آ گئے اس شاخ پر بھونرے
جہاں کانٹوں نے اس کی موت کا ساماں سجایا تھا
ستارا یہ زمیں بھی آسماں کا ایک ٹکڑا ہے
جسے روز ازل شاید خدا نے آزمایا تھا
میرے ہونٹوں پہ بیناؔ مسکراہٹ یوں مچلتی تھی
کہ میں نے حسرتوں کو اپنے شعروں میں چھپایا تھا
بینا گوئندی