جس دم وہ بزمِ ناز میں جلوہ نما ہؤا
پوچھو نہ پھر جو حشر دلوں میں بپا ہؤا
بدلا جو وقت میرا تو پھر رازداں مِرا
تھا میرے سامنے مِرا دشمن بنا ہؤا
پھیلی ہوئی تھی روشنی یہ دیکھتے تھے لوگ
دیکھا نہیں کسی نے مِرا گھر جلا ہؤا
آنکھوں میں گر رہے تو یہ رہتا ہے معتبر
ملتا نہیں پھر آنکھ سے آنسو گرا ہؤا
دشمن کے وار سے اسے پہنچا نہ کچھ گزند
تھا آستیں کے سانپ کا لیکن ڈسا ہؤا
ہو گا وہ کرب کیا کہ کسی سانحے کے بعد
جب لوٹتا نہیں کوئی گھر سے گیا ہؤا
وہ بھی سعید درد کا درماں نہ کر سکا
اک شخص جو تھا سب کا مسیحا بنا ہؤا
احمد سعید خان