غزل
جس طرح بہر اک قطرے قطرے میں ہے
ایک کہانی چھپی نقطے نقطے میں ہے
جب سے ہاتھوں میں میں نے اٹھایا قلم
تذکرہ بس ترا پنے پنے میں ہے
یہ ملن کی گھڑی یوں ہوئی مختصر
سمٹی جیسے صدی لمحے لمحے میں ہے
جب سے ہم راز تجھ کو ہے میں نے کیا
عام قصہ مرا کوچہ کوچہ میں ہے
کھڑکیاں تو کئی ان مکانوں میں ہے
پھر گھٹن کیوں یہاں کونے کونے میں ہے
کیوں طلب ہو تجھے ایک گھر کی حناؔ
آشیاں جب ترا ذرے ذرے میں ہے
حنا عباس