جس کو پایا ہی نہیں پھر اسے کھونا کیسا
ہائے ناکامیِ الفت ترا رونا کیسا
عشق میں جلنا مقدر ہوا پروانوں کا
اپنی پلکوں کا اے دل تیرا بھگونا کیسا
جو اترتے ہیں نہیں دل میں کسی بھی صورت
ایسے جذبات کا غزلوں میں پرونا کیسا
یوں تو آباد ہے صدیوں سے جہانِ حیرت
اس میں ہونا مرا موجود نہ ہونا کیسا
چھید کشتی میں تھے معلوم تھا پھر مجھ کو بتا
ایسی کشتی کو مرے یار ڈبونا کیسا
گر نہ برسے کبھی صحراؤں پہ برساتِ ہنر
ایسے صحراؤں میں پھر بیج کا بونا کیسا
اس نے اقبال کیا ترکِ تعلق تو بتا
تیرے پہلو میں یہ پھر دوجا بچھونا کیسا
ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ