جس کی خواہش تھی ضرورت سے زیادہ اوڑھے
آج پھرتا ہے محبت کو وہ آدھا اوڑھے
اس نے پہنے جو سبھی رنگ وہ خوش بخت ہوئے
اس پہ جچتی ہے سیہ شال جو سادہ اوڑھے
ہم کھلے دل سے ملے تنگ نظر لوگوں سے
ہم نے پھر خواب بھی آنکھوں پہ کشادہ اوڑھے
سارے جھوٹے ہیں منافق ہیں ریا کار ہیں یہ
جو بھی سچائی کا پھرتے ہیں لبادہ اوڑھے
مسکراتے ہوئے رستوں نے دعائیں دی ہیں
گھر سے نکلے ہیں جو منزل کا ارادہ اوڑھے
ہم نے بھی سیکھ لیا دنیا میں جینا فوزی
خوش رہا صبر کا وہ شخص بھی وعدہ اوڑھے
فوزیہ شیخ