جس ہَوا نے مجھ پہ طاری نیند کی
ہے پرانی اس سے یاری نیند کی
کیوں نہ کیجے سیر شہرِ خواب کی
جب میسر ہے سواری نیند کی
شخص وہ خود سے بھلا کب تک لڑے
جس پہ ہو یلغار جاری نیند کی
قوم کو قیمت چکانی پڑ گئی
کیا بتائیں کتنی بھاری نیند کی
کیا سمجھتا مَیں درست و نا درست
مجھ پہ طاری تھی خماری نیند کی
نیند کی آغوش میں جو لے گئی
وہ پری تھی کتنی پیاری نیند کی
بے خبر کر ڈالا گرد و پیش سے
دیکھیئے تو ہوشیاری نیند کی
نام کر دی اک حسیں کی یاد کے
رات پونجی میں نے ساری نیند کی
روز اک احساس فرحت کا ہوا
پار کر کے راہداری نیند کی
مار دیتی ہے اسے دنیائے خواب
ہووے متوالی جو ناری نیند کی
منفرد عادل لگی تیری غزل
تھی ردیف ایسی نیاری نیند کی
عادِل یزدانی چنیوٹ