Jaltay Howay chaman ko Bachana Paray Agar
غزل
جلتے ہوئے چمن کو بجھانا پڑے اگر
خوں سے تمہیں چراغ جلانا پڑے اگر؟
بیعت یزیدِ وقت کی کرنا نہیں کبھی
اپنی ہی لاش تم کو اٹھانا پڑے اگر
کیا ہو کہ گھیر لے تمہیں وحشی ہجوم یہ
اور تم کو دیس چھوڑ کے جانا پڑے اگر؟
اک شب گزارنی پڑے خوابوں کی راکھ پر
پہلو میں کوئی زخم سلانا پڑے اگر؟
رختِ سفر میں باندھ لو یادیں مری، کہیں
رستے میں دل کا بوجھ گھٹانا پڑے اگر
ہم سے فقیر باندھ کے گھنگھرو نکل گئے
اس واسطے کہ یار منانا پڑے اگر؟
یہ تیرگی نگل گئی حامیؔ کئی چراغ
قصرِ جہل گراو، گرانا پڑے اگر
حمزہ حامیؔ
Hamza Haami