غزل
جلووں کے دل فریب نظارے نظر میں ہیں
دریائے رنگ و نور کے دھارے نظر میں ہیں
سب کچھ سمجھ کے بھی نہ جنہیں کچھ سمجھ سکیں
مبہم سے ان کے وہ بھی اشارے نظر میں ہیں
اعراض حسن دوست ہے با طرز التفات
طوفاں کے ساتھ ساتھ کنارے نظر میں ہیں
اعمال اپنے کچھ بھی نہیں زیست میں مگر
اس کی ہی رحمتوں کے سہارے نظر میں ہیں
انعامؔ جن کو زیست میں حاصل نہیں سکوں
ایسے بھی کچھ حبیب ہمارے نظر میں ہیں
انعام تھانوی