غزل
جل گیا دل پگھلتا رہا آفتاب
کشمکش میں ڈھلا دن چڑھا ماہتاب
شُکر ہے ربّ نے دیں نعمتیں بے حساب
ویسے تو زندگی گزری ہے لاجواب
وقت چلتا رہا رُک نہ پایا کہیں
دے نہ پائی مجھے عمرِ رفتہ حساب
اِک خطا کا سزاوار ٹھہرا مگر
آیا زیرِ اثر اور زیرِ عتاب
مِل نہ پائیں جو راہیں یہاں مستقیم
دِل ہی دِل میں وہ کھاتا رہا پیچ و تاب
شخصیت تیری ہے سات پردوں میں گُم
ذات کی کھوج نکلی ہے گہرا سراب
حُسن زائل ہوا ایک دن زیست میں
پڑ گئیں جھریاں کھوگیا اب شباب
یہ کہانی لکھی تیرے ہی نام ہے
ہے کتابِ محبت کا تُو انتساب
بن کے خوشبو گلستاں میں تُو مہکے یوں
کھِل ثمرؔ اس جہاں میں تُو مثل گُلاب
ثمرین ندیم ثمر