loader image

MOJ E SUKHAN

19/04/2025 08:33

جمیل عثمان ۔۔ نصف صدی کے قصے رانا خالد محمود قیصر

جمیل عثمان ۔۔ نصف صدی کے قصے
رانا خالد محمود قیصر

 

ایک تخلیق کار کے ذہن میں مختلف خیالات بسیرا کئے ہوتے ہیں لیکن ان میں قرطاس ادب پر صرف وہ منتقل ہوتا ہے جس کو فہم وفراست کے سانچے میں ڈھالا جا سکے۔ کہانی لکھنا یا افسانہ لکھنا کہنے کو تو کارآسان ہے مگر لفظوں کے دروبست، محاورات کا استعمال اور زبان وبیان کے قوائد پر عمل پیرا ہونا جان جوکھم کا کام ہے۔ جمیل عثمان ایک کہنہ مشق لکھاری اور وسیع المطالعہ ادیب ہیں۔ نصف صدی کے قصے سے پہلے اُن کی نو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
کہانی نگاری کی تاریخ تو بہت پرانی ہے کیونکہ یہ زبانی طور پر سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی آرہی ہیں جبکہ افسانہ کی تاریخ ایک سو پچاس سال ہے۔ اس سفر میں منشی پریم چند اور ڈپٹی نذیر احمد نے جس طرح زمینی حقائق پر مبنی کہانی اور افسانے تحریر کئے ہیں عین اسی طرح عہد موجود کے ممتاز کہانی کار اور افسانہ نگار جمیل عثمان نے بھی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ اگر مجموعی طور پر موضوعات کا جائزہ لیں تو بہت طوالت درکار ہوگی لیکن فی الوقت ہم توجہ ”نصف صدی کے قصے” پر مرکوز رکھتے ہیں۔
جمیل عثمان کی تحریروں میں حقیقت پسندی کا جوہر نمایاں ہے، یہ جوہر زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہے، ان کے ہاں افسانوں میں معاشی وسماجی اقدار کے حوالے مستحکم صورتحال پیش کرتے ہیں۔ ان کا بیانیہ مشاہداتی اور تجرباتی ہے جو جذبات سے ہرگز عاری نہیں ہے۔ ان کے ایک افسانے ”حسن نظر” میں انداز بیان ملاحظہ ہو۔
”میرا چہرہ بیضوی ہے، آنکھیں نیلی، بھنویں گھنی اور پلکیں لانبی ہیں، ناک ستواں ہے اور ہونٹ پتلے! میری تھوڑی میں ہلکا سا خم ہے، بال سنہرے اور گھنگھریالے اور ان سب پر میری سرخ وسپید رنگت!! میری صحت قابل رشک حد تک اچھی ہے، کشادہ سینہ اور مضبوط بازو میری مردانہ وجاہت میں اضافہ کرتے ہیں۔ میں نے بال نہیں بڑھائے، پھر بھی ان عورت نما مردوں سے زیادہ پرکشش ہوں جو وضع قطع کیساتھ ساتھ چال ڈھال بھی عورتوں کی سی رکھتے ہیں۔”
درج بالا اقتباس سے تمثیل نگاری کا جوہر خدوخال سے باتیں کررہا ہے جو سچائی پر مبنی تو ہے لیکن افسانوی ادب میں حقائق کو بیان کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں جمیل عثمان نے ثابت کیا ہے کہ افسانوی ادب بنیادی طور پر انسانی زندگی کے نشیب وفراز سے نبردآزما رہتا ہے۔ یہ افسانوی ادب لکھنؤ کی تہذیب کو تمثیل نگاری کے انداز میں پیش کرتا ہے جیسا کہ ”تماش بینی کی ان لذتوں سے صرف اہل لکھنؤ ہی لطف اندوز نہیں ہوتے تھے بلکہ اس سامان تعیش کی شہرت اور لذت آگیں فضا دوسرے شہروں کے امیرزادوں اور نوجوانوں کیلئے بھی مقناطیسی کشش کی حیثیت رکھتی تھی جو بظاہر طلب علم کیلئے یہاں آتے تھے، لیکن لکھنؤ آکر ان پر یہاں کا رنگ اس طرح غالب آجاتا تھا کہ وہ درس وتدریس کو بھول کر علمِ تماش بینی میں طاق اور فن بے غیرتی میں مشتاق ہو جاتے تھے۔”
یہ منظرنگاری یا حقیقت نگاری امراؤ جان ادا کے حوالے سے ہے۔ ایسے ہی جمیل عثمان کے افسانوں میں حقیقت پسندی کا جوہر کچھ یوں ملتا ہے۔
”اوہ ہو!۔۔ وہ دھیرے دھیرے سے چلتی ہوئی میرے مقابل آکھڑی ہوئی: تو آخر آپ کا عشق رنگ لے ہی آیا”
”میں نے کوئی عشق وشق نہیں کیا!” میں نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”ہونہہ! جس لڑکی کی تعریف بھری محفل میں آپ کریں اور پھر کہیں کہ اس سے عشق نہیں! اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوسکتا ہے”
ٹھیک ہے۔۔ میں نے عشق کیا ہے بس۔۔۔ کوئی پابندی ہے؟۔۔ میں بھی خم ٹھونک کر بولا۔
”میں تو جانتی تھی کہ ایک نہ ایک دن یہ ہونا ہی تھا، ساتھ آنا ساتھ جانا، رات کو دیر دیر تک کام کرنا پھر گھر آکر بھی چین نہیں، پڑوس میں گھر، دونوں آنگنوں کے درمیان بس ایک دیوار۔۔ اور کیا چاہئے تھا؟ یہ نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا” وہ بڑبڑاتی رہی۔
”میں اس سے شادی کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں تھا ۔۔ لیکن۔۔!
”لیکن۔۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہوگئے۔۔ اب مجھ سے دل بھر گیا ہے نا آپ کا!”
”یہ بات نہیں”
درج بالا اقتباس خیال یار افسانے سے لیا گیا ہے کس قدر سلامت اور روانی ہے۔ تضع کا شائبہ تک نہیں ہے۔ اس طریقے سے جمیل عثمان پائیدار تحریر کی صورت میں قاری کے سوئے ہوئے احساس کو جگانے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ نہ تو اپنی دھن میں رہتے ہیں اور نہ بے جا مبالغہ آرائی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ درج بالا اقتباسات میں تحریر صاف اور ستھری ہے کوئی بدمذاقی یا ابتذال کی کیفیت کا عکس نہیں ہے۔
نصف صدی کے قصے میں 23 کہانیوں / افسانوں میں دلکش عنوانات تو ہیں مگر تحریر بھی لاجواب ہے اور تمام نگارشات حقیقت کی عکاس ہیں۔ صحت زبان کے حوالے سے بھی جمیل عثمان کو دسترس حاصل ہے ”نصف صدی کے قصے” یقینا افسانوی ادب میں ایک معتبر اضافہ ہے۔

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین