جنازے ڈھو رہے ہیں ہم ، شکستہ، خستہ و ماندہ
نہ ہم سے زندگی نادم ، نہ ہم سے موت شرمندہ
ہماری جا نمازوں پر سلگتے ہیں سجو دِ غم
دکھوں کے سرخ انگارے جبینوں پر ہیں تابندہ
لہو اپنے جگر گوشوں کا پھیلا ہے جن آنکھوں میں
وہاں سب کچھ گزشتہ ہے ، نہ موجودہ نہ آئیندہ
تعصّب اور نفرت کی وہ دستاویز لاتا ہے
جسے بھی ہم سمجھتے ہیں محبت کا نما ئیندہ
انوکھی کیا دعا مانگی ہے ربّ العالمیں ہم نے
سکونِ دل کے ہیں خواہاں، قرار ِ جا ں کے جوئیندہ
حمیدہ شاہین