غزل
جنون عشق کسی کو بھی یوں نہ راس آئے
وہ میرے پاس تو آئے مگر اداس آئے
جسے حیات کسی رخ سے بھی نہ راس آئے
کسی کے پاس نہ جائے ہمارے پاس آئے
وہاں سے جلد گزر جائیں رہروان حیات
جہاں بھی راہ میں کوئی مقام یاس آئے
فراق و وصل کی روداد مختصر یہ ہے
کبھی وہ پاس سے گزرے کبھی وہ پاس آئے
کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے جو بزم جاناں میں
اداس اداس گئے اور اداس اداس آئے
یہ اضطراب نہیں نعمت مسلسل ہے
خدا کرے کوئی عالم مجھے نہ راس آئے
کسی نے ایک اشارے کو بھی نہیں سمجھا
حضور دوست بہت سے ادا شناس آئے
غم حیات و غم دہر بخشنے والے
اک ایسا غم بھی عطا کر جو دل کو راس آئے
ادب میں کیفؔ کا دم بھی بہت غنیمت ہے
محال ہے کہ اب ایسا سخن شناس آئے
کیف مرادآبادی