جنون و عشق کے رستے بحال کرتی ہے
کبھی کبھی تو محبت کمال کرتی ہے
اب اور بوجھ اٹھانے کا حوصلہ تو نہیں
تھکے بدن میں ضرورت دھمال کرتی ہے
ذرا قریب سے دیکھو تو رو پڑو گے تم
جو مفلسی یہاں لوگوں کا حال کرتی ہے
عدو سے مانگتا کیوں ہے تو پیٹ کا ایندھن
غریب قوم کی غیرت سوال کرتی ہے
ہماری بات زمانے سے معتبر تو نہیں
مگر مداوائے رنج و ملال کرتی ہے
یہ سادہ قوم بھی بھولی ہے شاہ دل کتنی
کہ راہزن کو بھی رہبر خیال کرتی ہے
شاہ دل شمس