جنوں کی بستی میں آ گۓ ہو ذرا سنبھل کے
نۓ نۓ تم یہاں بسے ہو ذرا سنبھل کے
یہ کوۓ دل ہے جدھر بھی جاٶ اُداسیاں ہیں
ہنسی خوشی میں پلے بڑھے ہو ذرا سنبھل کے
نہ ایک تھے ہم, نہ ایک ہیں, اور نہ ایک ہوں گے
یہ بات کیا تم بھی جانتے ہو ذرا سنبھل کے
جو کل ملو تو خدا ہی جانے سلام بھی لے
جسے ابھی تم گلے ملے ہو ذرا سنبھل کے
جو سوچتے ہیں وہ اپنی سوچوں میں مر رہے ہیں
سنا ہے کچھ تم بھی سوچتے ہو ذرا سنبھل کے
مچلتی موجوں کی تم حقیقت نہیں سجھتے
فریب پہلے بھی کھا چُکے ہو ذرا سنبھل کے
یہیں سے لاوا اُبل پڑے کیا خبر کسی کو
کہ مطمئن تم جہاں کھڑے ہو ذرا سنبھل کے
تمھیں یہاں کے رواج رسمیں بتا رہا ہوں
یہ تم کہ آگے سے ہنس رہے ہو ذرا سنبھل کے
کل آصف آصف پکارو گے تو میں کیا کروں گا
میں کیا کروں گا بڑے بُرے ہو ذرا سنبھل کے
آصف جاوید