جواب اُس کے سبھی تو نہیں کمال کے تھے
کرشمہ جات ہمارے بھی کچھ سوال کے تھے
خزاں کی مہکی ہوئی شام کہہ رہی ہے کہ سب
چمن میں رنگ مرے یارِ خوش خصال کے تھے
اُن ہی کی یاد میں گزری ہے اپنی عمر تمام
جو لمحے تیرے مرے قرب اور وصال کے تھے
نگاہ بلند تھی ، چہرے پہ مسکراہٹ تھی
فقیر لوگ تھے جو شاہ کی مثال کے تھے
عجب خزاں تھی وہاں اک بہار کی مانند
نشاطِ رنگ جہاں مستِ مے غزال کے تھے
سرِ فلک کوئی حیرت کدہ کھُلا سیما
اُس آسماں کے نظارے عجب کمال کے تھے
عشرت معین سیما