جوانی کا زمانہ یاد آیا
محبت کا فسانہ یاد آیا
اگر آبادیوں میں شام آئی
پرندے کو ٹھکانہ یاد آیا
گلستان پر تو بجلی گر چکی ہے
تجھے اب آشیانہ یاد آیا
اگر میں جانبِ دل دیکھتا ہوں
نگاہوں کا نشانہ یاد آیا
محبت میں کسی کی مر رہا ہوں
مگر دل کو ترانہ یاد آیا
ہمارے سامنے وہ مسکرائے
ہمیں غم کا خزانہ یاد آیا ہ
مارے عشق کا دنیا میں قیصر
فسانہ تھا فسانہ یاد آیا
رانا خالد محمود قیصر