loader image

MOJ E SUKHAN

20/04/2025 15:59

جون ایلیا کون تھے کیا تھے

#یوم_ولادت_جون_ایلیا🌼🌸✨❤

جون ایلیا جن کا اصل نام سید حسین سبطِ اصغر نقوی تھا۔ ان کی پیدائش ۱۴ دسمبر ۱۹۳۱ امروہہ شہر میں ھوئی۔ یہ شہر بھارت کی ریاست اتر پردیش میں واقع ھے۔ جون ایلیا کے والد کا نام علامہ شفیق حسن ایلیا تھا۔ وہ نجومی اور شاعر بھی تھے۔ جون ایلیا کے تین بھائی تھے۔ رئیس امروہی’ سید محمد تقی اور محمد عباس اور بہن تھیں۔ جن کا نام نجفی تھا۔ جون ایلیا کا انتقال ۸ نومبر ۲۰۰۲ کو کراچی میں ھوا۔

#جون_ایلیا_کا_حلیہ

سر شفتہ، آنکھیں منتظر، دماغ سیر جمال
صحت خوب و خیال ، قد آور، ہاتھ قلم
صورت آشنا ، غصہ لبریز، دل پیمانہ“

بچپن

جون ایلیا ایک انٹرویو میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ھیں۔ ” میں اپنی ولادت کے تھوڑی دیر بعد چھت کو گھورتے ھوئے عجیب طرح ہنس پڑا۔ جب میری خالہ نے یہ دیکھا تو وہ ڈر کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔اس بے محل ہنسی کے بعد میں آج تک کھل کر نہیں ہنس سکا۔“

پہلا_شعر

جون ایلیا نے آٹھ برس کی عمر میں اپنا پہلا شعر کہا۔ اس حوالے سے اپنی کتاب ”شاید“ کے پیش لفظ میں قلم طراز ھیں۔ "میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اھم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ھوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ھوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

عشقِ_اور_جون

جون ایلیا کا مزاج بچپن سے عاشقانہ تھا۔ وہ اکثر تصور میں اپنی محبوبہ سے باتیں کرتے رھتے تھے۔ بارہ برس کی عمر میں وہ اک خیالی محبوبہ صوفیہ کو خطوط بھی لکھتے رھے۔ پھر نوجوانی میں اک لڑکی فارہہ سے عشق کیا۔ جسے وہ زندگی بھر یاد کرتے رھے، لیکن اس سے کبھی اظہار عشق نہیں کیا۔

ساری باتیں بھول جانا فارہہ
تھا وہ سب کچھ اک فسانہ فارہہ

ھاں محّبت ایک دھوکا ھی تو تھی
اب کبھی دُھوکا نہ کھانا فارہہ

ازدواجی_زندگی

جس زمانہ میں جون ایلیا رسالہ "انشاء” میں کام کر رھے تھے، ان کی ملاقات مشہور جرنلسٹ اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ھوئی ۱۹۷۰ میں دونوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا نے ان کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی۔ اور وہ ان کے ساتھ خوش بھی رھے۔ لیکن دونوں کے مزاجوں کے فرق نے دھیرے دھیرے اپنا رنگ دکھایا۔ یہ دو اناؤں کا ٹکراؤ تھا اور دونوں میں سے ایک بھی خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ آخر تین بچوں کی پیدائش کے بعد ان کے درمیان طلاق ھو گئی۔اس جدائی نے جون کی زندگی پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہ مایوسی کی تاریکیوں میں ڈوبتے چلے گئے۔طلاق کے بعد جون ایلیا کے محبت کے بارے میں یہ الفاظ تھے۔ ” اگر دنیا میں زاہدہ اور میری محبت ناکام ھو سکتی ھے۔ تو کسی کی بھی ھو سکتی ھے “

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ھی شخص تھا جہان میں کیا

جون_ایلیا_کی_شاعری

جون ایلیا کی شاعری سے متعلق ایک بات جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ یہ ھے کہ انھوں نے ترقی پسند، جدیدیت اور وجودیت جیسی تحریکوں سے وابستہ شاعروں کی اس روش سے خود کو الگ کیا۔ جس میں ذات و کائنات کے مسائل حاوی ھوتے تھے۔ انھوں نے میر و مومن کے بعد ایک بار پھر عشق و محبت جیسے موضوعات کو شاعری کا عنصر بنایا۔ اور غم ہجراں، وصال اور درد و اَلم سے شرابور نظمیں، غزلیں و قطعات صفحہ قرطاس پر اتار دیٸے۔ اپنی شاعری کے متعلق جون ایلیا کے یہ الفاظ ھیں۔
’’اپنی شاعری کا جتنا منکر میں ھوں، اتنا منکر میرا کوئی بدترین دشمن بھی نہ ھوگا۔ کبھی کبھی تو مجھے اپنی شاعری بڑی بے تُکی لگتی ھے۔ اس لیے اب تک میرا کوئی مجموعہ شائع نہیں ھوا۔ اور جب تک خدا ھی شائع نہیں کرائے گا اس وقت تک شائع ھوگا بھی نہیں “

ادبی_ذوق

جون ایلیا اردو ، فارسی، انگریزی، عبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی زبانیں خوب جانتے تھے۔ جون ایلیا تراجم، تدوین اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی مشغول رھے۔

کلام_کی_اشاعت

جون ایلیا اپنی زندگی کی طرح اپنی شاعری کی اشاعت کی طرف سے بھی لاپروا تھے۔ ١٩٩١ میں تقریبا” ساٹھ سال کی عمر میں دوست و احباب کے بیحد اصرار پر انھوں نے اپنا پہلا مجموعہ کلام "شاید” شائع کرایا۔اس کے بعد ان کے کئی مجموعے "گویا”، لیکن”، یعنی”، اور "گمان” شائع ہوۓ۔

ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ھے مجھ پر
ان میں اک رمز ھے جس رمز کا مارا ھوا ذہن

مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا

آخری_وقت

جون ایلیا کی شخصیت کا نقشہ ان کے ایک قریبی دوست قمر رضی نے ان کی زندگی کے آخری دنوں سے متعلق کچھ اس طرح پیش کیا ھے۔
"ایک زود رنج مگر بیحد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استادِ، اپنے خیالات میں ڈوبا ھوا راہگیر، اک مرعوب کن شریک بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غمگسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ھر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رھنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ھی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک نادرہ کار شاعر، یہ ھے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ھیں”
زاہدہ حنا کی جدائی کے بعد جون ایلیا تنہا رہ گئے۔ آپ نے اس غم کو بھولنے کے لیے بہت زیادہ شراب نوشی کی۔ جس کی وجہ ۸ نومبر ۲۰۰۲ آپ کا انتقال ھوگیا۔
ایک مشاعرے میں ایک ڈاکٹر سے مخاطب ھوکر جون ایلیا یہ الفاظ ادا کیٸے۔

” ڈاکٹر صاحب کچھ تو علاج کرو یار !!
مجھے ۱۷ سال ھوگئے۔ نیند نہیں آتی “

حرف_آخر

اس کی اُمید ناز کا ھم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیٸے ، عمر گزار دی گئی

ایک ھی حادثہ تو ھے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی

جون ایلیا اگر بڑے شاعر ھیں تو اس لئے نہیں کہ ان کی شاعری ان تمام کسوٹیوں پر پوری اترتی ھے۔ جو صدیوں کی شعری روایت اور تنقیدی معیارات کے تحت قائم ھوئی ھے۔ بلکہ وہ بڑے شاعر اس لئے ھیں کہ شاعری کے سب سے بڑے موضوع انسان کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیات پر جیسے اشعار جون ایلیا نے کہے ھیں، اردو شاعری کی روایت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کیفیت کو احساس کی شدْت کے ساتھ قاری یا سامع تک منتقل کر نے کی جو صلاحیت جون کے یہاں ھے، اس کی مثال اردو شاعری میں صرف میر تقی میر کے یہاں ملتی ھے.

منتخب_کلام

یوں جو تکتا ھے آسمان کو تُو
کوئی رھتا ھے آسمان میں کیا؟

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ھی شخص تھا جہان میں کیا؟

تیرا فراق جانِ جاں عیش تھا کیا مرے لیے
یعنی ترے فراق میں خوب شراب پی گئی

بعد بھی تیرے جان جاں دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تری یہاں ، پھر تری یاد بھی گئی

میں تو بے حس ھوں ، مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے؟

اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وھی بھول گئے

یہ غم کیا دِل کی عادت ھے؟ نہیں تو
کسی سے کُچھ شِکایت ھے؟ نہیں تو

ھے وہ اِک خوابِ بے تعبیر اُس کو
بُھلا دینے کی نیت ھے؟ نہیں تو

کِسی کے بِن کِسی کی یاد کے بِن
جیئے جانے کی ھمّت ھے؟ نہیں تو

کِسی صُورت بھی دِل لگتا نہیں ؟ ھاں
تو کُچھ دِن سے یہ حالت ھے؟ نہیں تو

تِرے اِس حال پر ھے سب کو حیرت
تُجھے بھی اِس پہ حیرت ھے؟ نہیں تو

وہ درویشی جو تج کر آ گیا تُو
یہ دولت اُس کی قیمت ھے؟ نہیں تو

ھم آھنگی نہیں دُنیا سے تیری
تُجھے اِس پر ندامت ھے؟ نہیں تو

ھوا جو کُچھ یہی مقسُوم تھا کیا ؟
یہی ساری حِکایت ھے ؟ نہیں تو

اذیت ناک اُمیدوں سے تُجھ کو
اماں پانے کی حسرت ھے ؟ نہیں تو

تُو رھتا ھے خیال و خواب میں گُم
تو اِس کی وجہ فرصت ھے ؟ نہیں تو

وھاں والوں سے ھے اِتنی محبّت
یہاں والوں سے نفرت ھے؟ نہیں تو

سبب جو اس جدائی کا بنا ہے
وہ مُجھ سے خُوبصورت ھے؟ نہیں تو۔۔۔!

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ھے، ھم اس سے جلتے ھیں

ھے اْسے دور کا سفر درپیش
ھم سنبھالے نہیں سنبھلتے ھیں

ھو رھا ھوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ھاتھ ملتے ھیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاوں جلتے ھیں

تم بنو رنگ، تم بنو خوشبو
ھم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ھیں

میں تیرے ساتھ بُجھ نہ سکا حد گزر گٸی
اے شمع ! میں ھوں تُجھ سے پشیماں الوداع

موجِ سخن ریسرچ ڈیسک

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین

ایک طوائف کا خط

کرشن چندر مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا خط نہ ملا ہو گا۔ یہ

فکر اقبال اور ہم

تحریر و تحقیق۔ ڈاکٹر دانش عزیز ’’ فکر‘‘ کے معنی سوچ بچار ، عاقبت اندیشی، اِضطراب ، پریشانی کے لئے