loader image

MOJ E SUKHAN

18/06/2025 00:38

*جون ایلیا کی نظم "فن پارہ” کا مابعدالجدیدی (Postmodernist) تنقیدی تجزیہ*

*جون ایلیا کی نظم "فن پارہ” کا مابعدالجدیدی (Postmodernist) تنقیدی تجزیہ*
تحریر: آصف علی آصف
مابعد جدیدیت (Postmodernism) ایک ایسا تنقیدی زاویہ ہے جو معنی کی غیر مستقل حیثیت، حقیقت کی شکست وریخت، متن کی کثیر الجہتی، اور مستند سچائی (Absolute Truth) کے رد پر مبنی ہے۔ ژاک دریدا (Jacques Derrida)، ژاں بودریار (Jean Baudrillard)، اور جولیا کرسٹیوا (Julia Kristeva ) جیسے مفکرین نے مابعد جدیدیت کے نظریات کو فروغ دیا جن کے مطابق ادب میں کوئی بھی تصور یا حقیقت مستقل نہیں بلکہ ہر چیز ایک سماجی اور لسانی تشکیل (Construct) ہوتی ہے جو سیاق و سباق کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔
جون ایلیا کی نظم "فن پارہ” ایک ایسا تجرباتی متن ہے جو خود اپنے معنی، فن کی حیثیت، اور حقیقت کی تشکیل پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہ نظم روایتی شاعری کے اصولوں کو توڑتی ہے، متن کی غیر قطعیت (Indeterminacy) کو اجاگر کرتی ہے اور قاری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ہر لفظ کو کئی مختلف زاویوں سے دیکھے۔ اگر اس نظم کو مابعد جدید تنقید کے اصولوں پر جانچا جائے تو یہ ایک ایسی تخلیق بن جاتی ہے جو معنی کی مسلسل تبدیلی، حقیقت کے بکھراؤ، اور فن کے وجودی بحران کو ظاہر کرتی ہے۔
*۱۔ متن کی خود آگاہی (Self-Reflexivity): فن پارہ بطور متن*
مابعد جدید ادب کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ خود اپنے ہونے پر سوال اٹھاتا ہے یعنی ایک خود آگاہ (Self-Reflexive) تخلیق ہوتا ہے۔
جون ایلیا کی نظم "فن پارہ” اسی نوعیت کی تخلیق ہے جو خود یہ سوال اٹھاتی ہے کہ فن کیا ہے؟ کیا ایک "فن پارہ” کوئی مستند حقیقت رکھتا ہے یا یہ محض ایک تشکیل شدہ تصور ہے؟ یہاں فن، حقیقت اور وجود سب پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے جو مابعد جدیدیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔
یہ کرسٹیوا، بارتھ اور دریدا کے "متن میں ہی کئی متن چھپے ہوتے ہیں” (Textuality & Intertextuality) کے نظریے سے مطابقت رکھتا ہے جہاں ایک تخلیق خود اپنے بیانئے پر سوال اٹھاتی ہے۔
*۲۔ حقیقت کی شکست و ریخت (Fragmentation of Reality):*
مابعد جدیدیت میں حقیقت (Reality) کوئی مستحکم شے نہیں بلکہ ایک بکھری ہوئی تشکیل (Construct) ہوتی ہے، جو قاری اور سیاق کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ جون ایلیا کی نظم "فن پارہ” میں بھی یہی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا ایک فن پارہ واقعی کسی حقیقت کو بیان کر سکتا ہے یا یہ صرف ایک زبان کا کھیل ہے؟
مابعد جدیدیت حقیقت کو ٹکڑوں میں بکھرا ہوا دیکھتی ہے اور یہی بکھراؤ جون ایلیا کی شاعری کا ایک لازمی عنصر ہے۔
یہ ژاں بودریار کے "Simulation & Hyperreality” کے تصور سے جڑا ہوا ہے جہاں حقیقت محض ایک نمائندگی (Representation) بن کر رہ جاتی ہے اور اصل حقیقت کبھی مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آتی۔
**۳۔ زبان کی غیر یقینی (Indeterminacy of Language):*
دریدا کا نظریہ "اختلاف” (Différance) کہتا ہے کہ کسی بھی لفظ کا مطلب کبھی مکمل طور پر متعین نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ دوسرے الفاظ کے تناظر میں تشکیل پاتا ہے، اور اس میں تاخیر (defer) موجود ہوتی ہے۔ جون ایلیا کی نظم "فن پارہ” میں بھی یہی لسانی عدم قطعیت (Linguistic Indeterminacy) موجود ہے جہاں قاری ایک معنی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے مگر متن اسے ایک نئے سوال میں الجھا دیتا ہے۔یہ نظم ایک "لغوی کھیل” (Word Play) بھی ہے جہاں زبان خود اپنی حقیقت پر سوال اٹھاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جون ایلیا کی شاعری کو مابعد جدید تنقید میں "Meaning Crisis” یعنی "معنی کے بحران” کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
۴۔ صنفی آمیزش (Genre Blurring):
مابعد جدیدیت میں صنفی آمیزش (Genre Blurring) ایک عام عنصر ہے جہاں ادب کی روایتی حدود کو توڑ کر ایک نئی شکل دی جاتی ہے۔ جون ایلیا کی نظم "فن پارہ” کو دیکھا جائے تو یہ محض روایتی پابند نظم نہیں بلکہ اس میں قافیہ، ردیف اور بند سے آزادی برتی گئی ہے یہ ایک معرّا نظم ہے جسکا ہر مصرعہ بحرخفیف (فاعلاتن مفاعلن فعلن) کا پابند ضرور ہے۔
*۵۔ بین المتنی تعلق (Intertextuality)*
مابعد جدید ادب میں بین المتنی تعلق (Intertextuality) بہت اہم ہوتا ہے یعنی ایک متن دوسرے متون یا بیانیوں سے متاثر ہوتا ہے اور انہیں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ جون ایلیا کی نظم "فن پارہ” میں بھی یہ پہلو موجود ہے کیونکہ یہ نہ صرف روایتی رومانویت کو ترک کرتی ہے بلکہ فلسفہ، ادب اور مابعد جدید بیانیوں کی عدمیت کے بیانئے سے بھی متاثر نظر آتی ہے۔
جون ایلیا نے بنیادی طور پر اردو شاعری کے کلاسیکی بیانیوں کو توڑ کر ایک نیا بکھرا ہوا بیانیہ تخلیق کیا ہے جو کسی مخصوص معنی تک محدود نہیں۔
یہ نظریہ رولاں بارتھ کے "مصنف کی موت” (Death of the Author) کے تصور سے جڑا ہوا ہے جہاں کسی بھی فن پارے کی تشریح مصنف کی نیت سے نہیں بلکہ دوسرے متون اور قاری کے تجربے سے متعین ہوتی ہے۔
*۶- مزاح اور طنز (Irony & Parody):*
مابعد جدید ادب اکثر طنزیہ (Ironic) اور خود مزاحیہ (Self-Parodying) ہوتا ہے جہاں متن خود اپنی حقیقت پر سوال اٹھاتا ہے۔جون ایلیا کی نظم میں بھی یہی عنصر نمایاں ہے جہاں وہ خود اپنی تحریر، اپنی شناخت اور یہاں تک کہ "فن پارہ” ہونے کے تصور پر بھی طنز کرتا ہے۔ یہ نظم محض سنجیدہ فلسفیانہ سوالات نہیں اٹھاتی بلکہ یہ خود پر ہنستی بھی ہے اور قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا واقعی "فن پارہ” کوئی مستند حقیقت رکھتا ہے؟
یہ ژاں بودریار کے "Hyperreality” کے نظریے سے جُڑا ہوا ہے جہاں حقیقت اور تخیل کی حدود دھندلا جاتی ہیں اور قاری نہیں جان پاتا کہ وہ ایک "فن پارے” کو پڑھ رہا ہے یا ایک "فن پارے پر طنز” کو۔
*نتیجہ: "فن پارہ” ایک مابعد جدید نظم ہے*
کیونکہ یہ نظم خود آگاہ (Self-Reflexive)، حقیقت کو بکھیرنے والی (Fragmented), معنی کی غیر یقینی (Indeterminate), روایتی پابند حدود کو توڑنے والی (Genre Blurring), بین المتنی (Intertextual) اور طنزیہ (Ironic) ہے۔
یہ نظم مستند حقیقت (Absolute Truth) کو مسترد کرتی ہے اور فن کی حیثیت پر سوال اٹھا کر قاری کو نئے زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
یہ نظم محض ایک "فن پارہ” نہیں بلکہ خود "فن” کے تصور پر ایک فکری و جذباتی مذاق (Intellectual & Emotional Play) ہے جو مابعد جدیدیت کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
تحریر
آصف علی آصف
Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین