جو اب مرا ہے کسی اور کا نہ ہو جائے
یہ چار دن کی خوشی بھی ہوا نہ ہو جائے
اسی لئے مجھے رکھتا ہے اپنی مثھی میں
مری نمود کہیں جا بہ جا نہ ہو جائے
پلٹ رہی ہے گزشتہ رفاقتوں کی مہک
پرانا ہوتا ہوا دکھ نیا نہ ہو جائے
تڑپتے رہنا اسے دیکھنے کی خواہش میں
یہ سوچنا بھی، کہیں سامنا نہ ہو جائے
کلی سے پھول سے باد صبا کے جھونکے سے
کسی سے تو سخن محرمانہ ہو جائے
اترتے دیکھ کے مظلوم آنکھ میں آنسو
لرز رہا ہوں قیامت بپا نہ ہو جائے
ہدف بنائے ہوئے ہے کوئی نظر مجھ کو
دعا کرو کہ نشانہ خطا نہ ہو جائے
تمام عمر جسے ٹھوکروں میں رکھا ہے
وہ سنگ راہ گزر بھی خدا نہ ہو جائے
بنام زیست کوئی گیت گنگنا ہی لوں
کہ پھر یہ ساز نفس بے صدا نہ ہو جائے
وہ اپنی جیب سے خیرات تک نہیں کرتا
کہ اس کے ہاتھوں کسی کا بھلا نہ ہو جائے
سکوت ہی نے سلامت رکھا ہوا ہے بھرم
کھلے زبان تو دشمن زمانہ ہو جائے
ہجوم ہمسفراں سے توقعات نہ باندھ
نجانے کون کدھر کو روانہ ہو جائے
سید انصر