Jo Apni Riyakaari pa Itrayyee Hoyee Hain
غزل
جو اپنی ریا کاری پہ اترائے ہوئے ہیں
در اصل یہی دنیا کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
دل کرتا ہے ہم ان کو گلے اپنے لگالیں
ممتا کے لیے ہاتھ جو پھیلائے ہوئے ہیں
یہ کس نے شرر پھونکا ہے اوطاقِ وفا میں
کھلتے ہوئے یہ چہرے جو کملائے ہوئے ہیں
میں جنگ میں مصروف تھی جب موت سے اپنی
وہ برسے جنہیں سمجھی تھی شرمائے ہوئے ہیں
آنکھوں کے دریچوں میں لیے حسن کی قینچی
تتلی کے تعاقب میں یہ کون آئے ہوئے ہیں
اشعار بتادیں گے زمانے کو ہمارے
تنہائی کی اس قید میں تڑپائے ہوئے ہیں
سایہ تو محبت کے شجر کا ہی گھنا ہے
انجم یہاں کیا ڈھونڈنے ہم آئے ہوئے ہیں
شہناز انجم
Shahnaz Anjum