جو جستجو کروں ہر راز پا بھی سکتا ہوں
میں کائنات سے پردہ اٹھا بھی سکتا ہوں
۔
مرے بزرگوں نے بخشی ہے اک دعا ایسی
بچھڑ گئے ہیں جو ان کو ملا بھی سکتا ہوں
۔
نہ کوئی زائچہ کھینچوں نہ دیکھوں ہاتھ ترا
میں تیرے بارے میں سب کچھ بتا بھی سکتا ہوں
۔
بس ایک رات میں سجدے میں گر کے رویا تھا
اب آسماں کو زمیں پر جھکا بھی سکتا ہوں
۔
ابھی تو سوچ سفر ہے ازل کی سمت مگر
پلٹ کے سوئے ابد پھر سے جا بھی سکتا ہوں
۔
مجھے خدا نے وہ بخشا ہے شاعری کا ہنر
جو خواب دیکھتا ہوں وہ دکھا بھی سکتا ہوں
۔
یہ مانتا ہوں کہ عارف ہوں کربلا سے دور
مگر میں حر کی طرح سر کٹا بھی سکتا ہوں
عارف شفیق