جو جنوں کی راہ پے سر گیا
تو نصابِ فصلِ ہنر گیا
تھا مری انا کا شکستہ بت
وہ جو ریزہ ریزہ بکھر گیا
تیری اک نگاہِ گمان پر
مرا عکسِ جان نکھر گیا
میں نے ہر نفس اسے پا لیا
میں ا’دھر گئی وہ جدھر گیا
ا’سے منزلوں کی طلب نہ تھی
مرےپاس سے وہ گزر گیا
مجھے پھول چننے کی چاہ تھی
مرا دشت کانٹوں سے بھر گیا
بجھے خواب ہوں کہ چراغ ہوں
مجھے تنہا رات کا ڈر گیا
بڑی دور تک ا’سے دیکھنا
وہ بچھڑ گیا تو سفر گیا
مرے رخ پہ ا’س نے نگاہ کی
مرا سازِ ہستی سنور گیا
شائستہ مفتی