جو حقیقت ہے مرے وہم و گماں سے کم ہے
تپش اشک مرے سوز نہاں سے کم ہے
یہ جو قدموں میں ستاروں کا جہاں دیکھتے ہو
یہ جہاں بھی میرے خوابوں کے جہاں سے کم ہے
آج کل نیند نہیں آتی ہے شب بھر مجھ کو
جو خسارہ ہے مرے اشک رواں سے کم ہے
یہ بھرم کھونے کا ماتم ہے جو تم دیکھتے ہو
جو زیاں ہے مرے احساس زیاں سے کم ہے
تم مرے جذبوں کی شدت کو کہاں جانتے ہو
جو عیاں ہے مری بے تابئ جاں سے کم ہے
اب کسی کی کوئی خوبی نہیں دیکھی جاتی
لوگ یہ دیکھتے ہیں کون کہاں سے کم ہے
اقبال قمر