جو خواب دیکھا تھا وہ خواب ہی سہانا تھا
وگرنہ باتوں میں تیری کہاں سے آنا تھا
بس ایک حادثہ لے کر چلا گیا اس کو
وگرنہ اس سے تعلق بہت پرانا تھا
تمام عمر بسر کی بس ایک وعدے پر
کچھ اس طرح بھی ترا ظرف آزمانا تھا
لکھا نصیب کا کوئی مٹا سکا ہے کہاں
بچھڑنا اس کا بھی گویا کے اک بہانہ تھا
یہ کون کہتا ہے کے عارضی محبت تھی
تمہیں تو ساتھ مرا عمر بھر نبھانا تھا
میں اس لیے بھی رہا ہجر میں سسکتا ہوا
مجھے تو ہجر کو سہہ کر اسے دکھانا تھا
شبِ فراق میں اقبال کرب تھا اتنا
دلِ حزیں کو کہاں اس کے بن ٹھکانا تھا
ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ