Jo Daad Apnay Hissay ki Paanay say Reh Gayee
غزل
جو داد اپنے حصے کی پانے سے رہ گئے
ہم بھی کبھی غزل تھے، سنانے سے رہ گئے
اِک بے وزن کلام تھی شاید یہ زندگی
کچھ قافیے ردیف نبھانے سے رہ گئے
محفل سے اٹھ گئے کہ کوئی آشنا نہ تھا
تُجھ پہ نظر پڑی تو بہانے سے رہ گئے
شاہراہِ دل پہ ایک اسی کا مکان تھا
ہم جس کو دل کا حال بتانے سے رہ گئے
ہم بھی ہدف پذیر تھے، وہ بھی نشانہ زن
وہ تو کرم خدا کا، نشانہ سے رہ گئے
رُک رُک کے چل رہے تھے یقین و گماں کے بیچ
منزل تھی چند گام پہ، جانے سے رہ گئے
اس منفعت پسند زمانے سے ہار کر
پیچھے بہت زیادہ زمانے سے رہ گئے
شکوہ کناں ہو ظلمتِ شب سے بہت تقی
تم بھی مگر چراغ جلانے سے رہ گئے
سید تقی حیدر تقی
Syed Taqi Haider Taqi