غزل
جو دل ہو جلوہ گاہ ناز اس میں غم نہیں ہوتا
جہاں سرکار ہوتے ہیں وہاں ماتم نہیں ہوتا
ہوس آخر ہوس ٹھہری ہوس کا ذکر ہی کیا ہے
مگر جب عشق ہو جاتا ہے پھر وہ کم نہیں ہوتا
جگر کے زخم بھرتے ہیں نہ دل کے داغ مٹتے ہیں
محبت کی جراحت کا کہیں مرہم نہیں ہوتا
مقام قرب میں بھی ہیں وہی بے تابیاں باقی
کسی منزل میں ہو دل کا تڑپنا کم نہیں ہوتا
غرور عبدیت بھی اللہ اللہ کچھ عجب شئے ہے
ترے در کے سوا یہ سر کہیں بھی خم نہیں ہوتا
تڑپنے سے ذرا سا مل تو جاتا ہے سکوں کاملؔ
مگر اس طرح درد دل کسی کا کم نہیں ہوتا
کامل شطاری