جو دیکھو تو عیاں کچھ بھی نہیں ہے
جو سوچو تو نہاں کچھ بھی نہیں ہے
وہ رہتا ہے کہیں اس سے بھی آگے
یہ نیلا آسماں کچھ بھی نہیں ہے
فقط دو چار دن کی ہے یہ دنیا
ارے چھوڑو یہاں کچھ بھی نہیں ہے
کہاں دارا کہاں ہے اب سکندر
بچا کس کا نشاں کچھ بھی نہیں ہے
نہ طالب ہے نہ ہے مطلوب کوئی
زماں اور یہ مکاں کچھ بھی نہیں ہے
سبھی جذبوں کی قیمت لگ چکی ہے
محبت کا بیاں کچھ بھی نہیں ہے
نیلما ناہید درانی