جو غم گسار تھے وہ کہانی سے کٹ گئے
تم سے بچھڑ کے ہم بھی جوانی سے کٹ گئے
ناکام چاہتوں سے جو پلٹے تو یہ ہوا
ہم گھر کے راستے کی نشانی سے کٹ گئے
شوریدہ سر جو دھارے تھے نہروں میں بٹ کے وہ
دریا کی خوش خرام روانی سے کٹ گئے
سلمان جب سے ہجر کی راتیں نہیں رہیں
اپنے چمن کی رات کی رانی سے کٹ گئے
سلمان صدیقی