جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا
۔
جو دعا کو ہاتھ اٹھائے بھی تو مراد یاد نہ آ سکی
کسی کارواں کا جو ذکر تھا وہ پس غبار کہاں رہا
۔
یہ طلوع روز ملال ہے سو گلہ بھی کس سے کریں گے ہم
کوئی دل ربا کوئی دل شکن کوئی دل فگار کہاں رہا
۔
کوئی بات خواب و خیال کی جو کرو تو وقت کٹے گا اب
ہمیں موسموں کے مزاج پر کوئی اعتبار کہاں رہا
۔
ہمیں کو بہ کو جو لیے پھری کسی نقش پا کی تلاش تھی
کوئی آفتاب تھا ضو فگن سر رہ گزار کہاں رہا
۔
مگر ایک دھن تو لگی رہی نہ یہ دل دکھا نہ گلہ ہوا
کہ نگہ کو رنگ بہار پر کوئی اختیار کہاں رہا
۔
سر دشت ہی رہا تشنہ لب جسے زندگی کی تلاش تھی
جسے زندگی کی تلاش تھی لب جوئبار کہاں رہا
ادا جعفری