غزل
جو چند لوگ مرے شعر سن کے جاتے ہیں
طلسم ہوش ربا پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں
مسرتوں کو سمجھنے کی کیسی رت آئی
سگان شہر بھی اب قہقہے لگاتے ہیں
لباس مانگ کے پہنا ہے کچھ رفیقوں نے
اور اس پہ لطف مجھے آئنہ دکھاتے ہیں
وہی بتائیں گے تنہا شبوں کی معراجیں
جو اپنی ذات کے مدفن میں ڈوب جاتے ہیں
ہر ایک لمحہ کسی جا رہی ہیں زنجیریں
عجب غلام ہیں ہم پھر بھی مسکراتے ہیں
نجانے کون مجھے یاد کر کے رویا قیسؔ
ہوا کے دوش پہ اشکوں کے جام آتے ہیں
قیس رامپوری